50 لاکھ مسلمان سماج کا حصہ ہے یا نہیں ؟ صرف ووٹ بینک !
حیدرآباد۔9۔جون۔(سیاست نیوز) مسلمان سماج کا حصہ نہیں ہیں!مسلمانوں کو ان کے حقوق کے حصول کے لئے جدوجہد نہیں کرنی چاہئے !مسلمان سیاسی جماعتوں کے رحم و کرم پر ہیں یا وہ اپنے حقوق حاصل کرنا جانتے ہیں!تلنگانہ ریاستی کابینہ میں مسلم وزیر کی عدم شمولیت پر سوشل میڈیا پر اس طرح کے تبصرے عام ہونے لگے ہیں اور کانگریس پارٹی کو راست نشانہ بناتے ہوئے یہ کہا جا رہاہے کہ تلنگانہ میں حصول اقتدار کے لئے کانگریس نے بھاری تعداد میں مسلم ووٹ حاصل کرنے کے باوجود مسلمانوں کو کابینہ میں شامل نہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو دھوکہ دیا ہے۔کانگریس نے تلنگانہ میں تشکیل حکومت کے 18ماہ بعد کی گئی کابینہ کی دوسری توسیع کے دوران ریاست تلنگانہ کے مسلمانوں کو کابینہ میں شامل نہ کرنے کے باوجود اسے سماجی انصاف سے تعبیر کرتے ہوئے مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا ہے۔یوپی اے حکومت میں ڈاکٹر منموہن سنگھ نے ملک بھر میں مسلمانوں کی سماجی ‘ معاشی اور تعلیمی صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے جو کمیٹی تشکیل دی تھی اور جسٹس راجندر سچر کمیٹی نے جب اپنی رپورٹ پیش کی تو یہ رپورٹ ملک بھر میں مسلمانوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی تھی کیونکہ جسٹس راجندر سچر نے اپنی رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ ہندستان میں مسلمانوں کی حالت ’دلتوں‘ سے بدتر ہے لیکن تلنگانہ میں ریاستی کانگریس حکومت کی جانب سے مسلمان کو کابینہ میں شامل نہ کرتے ہوئے سماجی انصاف کا دعویٰ کیا جا رہاہے جبکہ دلتوں کو ریاستی کابینہ میں بھرپور نمائندگی دی گئی ہے۔Xپلیٹ فارم پر کئے گئے ایک تبصرے میں کہا گیا ہے کہ ریاست میں کانگریس نے اپوزیشن بی آر ایس سے محض 2.05 فیصد زائد ووٹ حاصل کرتے ہوئے اقتدار حاصل کیا ہے اور زائد از 3.6 فیصد مسلم ووٹ جو کہ بی آر ایس سے کانگریس کی جانب سے منتقل ہوا جو کہ مجموعی اعتبار سے 1لاکھ 60 ہزار سے زائد ہے اس کے باوجود کانگریس نے مسلمان کو کابینہ میں جگہ فراہم نہیں کی اور یہ باور کروانے کی کوشش کی جار ہی ہے کہ حکومت نے سماجی انصاف کیا ہے۔3