تلنگانہ میں T20 ماڈل پر عمل آوری ۔گجرات ماڈل قصہ پارینہ ہوگیا ۔ ریونت ریڈی

   

ریاست کی اقتصادی ترقی ایک ٹریلین تک پہنچانے کا عزم ‘ حلقوں کی حد بندی آبادی کے تناسب سے نہیں معاشی ترقی کی بنیاد پر کرنے پر زور
حیدرآباد۔ 10 مئی (سیاست نیوز) چیف منسٹر ریونت ریڈی نے گجرات ماڈل کو گذرا ہوا باب (قصہ پارینہ) قرار دیتے ہوئے کہا کہ تلنگانہ T20 ماڈل پر عمل کررہا ہے۔ ریاست کی ترقی عوام کی فلاح و بہبود کانگریس حکومت کی اولین ترجیح ہے ۔ جمعہ کو بنگلورو میں ’دی ہندو‘ اخبار کے زیر اہتمام ایک تقریب میں زوم کے ذریعہ حصہ لیتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا۔ چیف منسٹر ریونت ریڈی نے کہا کہ ہم نے ڈاوس کانفرنس میں شرکت کرکے تلنگانہ میں 3 لاکھ کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کو راغب کیا ہے۔ آندھرا پردیش کے مچھلی پٹنم سے تلنگانہ تک سڑک کی تعمیر کے ذریعہ ایک ڈرائی پورٹ کا آغاز کر رہے ہیں، نیٹ زیروسٹی کی حیثیت سے فیوچر سٹی تعمیر کررہے ہیں۔ گجرات ماڈل پرانا ہوچکا ہے۔ یہ مودی ماڈل واٹس ایپ یونیورسٹی ہے جس میں صرف پبلسٹی کو اہمیت دی جاتی ہے۔ ہم خدمات کے ذریعہ ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے ماڈل پر کام کررہے ہیں۔ سابق حکومتوں اور چیف منسٹرس نے تلنگانہ کو ترقی دینے اپنی اپنی کوشش کی ہے۔ ہماری حکومت کا مقصد تلنگانہ کیلئے ایک ٹریلن ڈالر کی اقتصادی ترقی ہے۔ ریونت ریڈی نے حلقوں کی حد بندی پر سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر حلقوں کو آبادی کی بنیاد پر تقسیم کیا جاتا ہے تو تلنگانہ کو شدید نقصان پہنچے گا۔ موجودہ حلقوں کی بنیاد پر بھی حد بندی کی جاتی ہے تو تلنگانہ کو نقصان ہوگا۔ مرکزی حکومت لوک سبھا میں جنوبی ہند کی نمائندگی گھٹانے کی سازش کررہی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ملک پر ہمیشہ ایک شخص اور ایک ہی جماعت کی حکمرانی ہونی چاہئے۔ ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے میں جو ریاست نمایاں رول ادا کررہی ہے۔ اسی سطح پر نشستیں مختص کی جانی چاہئے۔ اس حساب سے 33 فیصد نشستیں جنوبی ہند کو مختص کرنا ہوگا تبھی ہم ہماری آواز لوک سبھا میں اٹھا سکتے ہیں۔ کے سی آر کی قیادت والی بی آر ایس پارٹی اس منصوبے کے ساتھ چینائی کے اجلاس میں شریک ہوئی۔ مرکزی حکومت اس پر تبادلہ خیال کرنے تمام سیاسی جماعتوں کا اجلاس طلب کرے۔ کس بنیاد پر حلقوں کی حد بندی ہو اس پر تمام جماعتوں کی رائے حاصل کی جائے۔ ریونت ریڈی نے کہا کہ راہول گاندھی نے اپنی پدیاترا کے دوران وعدہ کیا تھا کہ اگر کانگریس اقتدار میں آتی ہے تو ذات پات کی مردم شماری کروائی جائے گی۔ راہول گاندھی کے وعدے پر عمل کرکے تلنگانہ میں ذات پات کی مردم شماری کرائی گئی۔ درحقیقت ہم نے ایک سماجی، معاشی، سیاسی، تعلیمی اور روزگار پر مشتمل ذات پات کا سروے کرایا جس سے سماجی نقطہ نظر کو فروغ دینے میں مدد ملے گی۔ چیف منسٹر نے کہا کہ وہ دیہی پس منظر سے آتے ہیں اس لئے ذات پات کے اثرات کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس لئے تمام ذاتوں اور طبقات کو یکساں تعلیمی مواقع فراہم کرنے ایس سی، ایس ٹی، بی سی، اقلیتی اور ای ڈبلیو ایس طلبہ کو ینگ انڈیا کے رہائشی اسکولس میں تعلیم فراہم کریں گے۔ ہر اسمبلی حلقہ میں 25 ایکڑ اراضی پر 250 کروڑ کے اخراجات سے ایک اسکول قائم کرنے انقلابی اقدامات کئے جارہے ہیں۔ تلنگانہ کی اسکیمات ملک کیلئے رول ماڈل بن رہی ہیں۔ اگر خاندان میں ایک صنعتکار اور ایک سرکاری ملازم بن جائے تو خاندان کی حالت بدل جائے گی۔ کانگریس حکومت نے تلنگانہ میں 25,35,364 کسانوں کے21 ہزار کروڑروپے کے زرعی قرض معاف کئے ہیں۔ زرعی مزدوروں کو سالانہ 12 ہزار روپے کی مالی امداد کی جارہی ہے۔ 24 گھنٹے معیاری برقی سربراہ کی جارہی ہے۔ سیلف ہیلپ گروپس کی خواتین کو سولار پاور پلانٹس کی ذمہ داریاں سونپی جارہی ہیں۔ انھیں ایک ہزار آر ٹی سی بسیں کرائے پر دی گئی ہیں، بیروزگار نوجوانوں کو ہنر کی تعلیم فراہم کرنے ینگ انڈیا اسکل یونیورسٹی قائم کی گئی ہے۔ 2