تلنگانہ کا موضع بیواگان میں تبدیل

   

معدنیات اور کریشنگ سے گرد و غبار ، شوہروں کی اموات سے بیوائیں کسمپرسی کا شکار
حیدرآباد ۔ 7 ۔ جنوری : ( سیاست نیوز) : عرصہ دراز سے خشک سالی سے متاثرہ ضلع محبوب نگر کی عجیب و غریب کیفیت منظر عام پر آئی ہے کیوں کہ اس ضلع میں ایک ایسا موضع بھی ہے جہاں خواتین کی اکثریت بیوہ ہیں ۔ یہ سن کر ہمیں حیرت ضرور ہوگی لیکن جب اس کی حقیقت کا جائزہ لیں تو یہ بات سچ ثابت ہوگئی ۔ آخر اس طرح کے واقعات کی وجہ کیا ہے اگر ہم جاننے کی کوشش کریں تو پتہ چلتا ہے کہ الکٹہ نامی قریہ کافی گرد و غبار سے شدید طور پر متاثر ہے کیوں کہ تلنگانہ ریاست کے شاد نگر سے صرف پانچ کیلو میٹر دوری پر واقع اس گاؤں کے اکثر مرد حضرات روزی روٹی کے لیے محنت مزدوری سے وابستہ ہیں لیکن اس محنت و مزدوری کے مثبت نتائج برآمد ہونے کے بجائے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔ بتایا جاتا ہے کہ آندھرا پردیش منرل ڈیولپمنٹ کارپوریشن ( اے پی ایم ڈی سی ) کا کریشنگ فیکٹری الکٹہمیں واقع ہے جہاں 1970 سے خواتین اپنے شوہروں کی زندگیوں سے محروم ہوگئے ہیں کیوں کہ مزدور پیشہ افراد کریشنگ سے نکلنے والے گرد سے شدید متاثر ہو کر فوت ہوگئے ۔ احتیاطی تدابیر اور بروقت طبی امداد فراہمی پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔ ہم یہاں 1970 کے دہے میں پیش آئے ایک واقعہ کی مثال پیش کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ نرسما نے سال 1970 میں چندا مولی سے شادی کے بندھن سے جڑ گئی اور شوہر معدنیات کی کمپنی سے وابستہ ہو کر آمدنی کا ذریعہ ثابت ہورہا تھا اور سال 1980 میں انہیں ایک لڑکا تولد ہوا ۔ ان کی شادی کے ابتدائی چار سال خوشحال ثابت ہوئے تاہم سال 1981 میں چندرا مولی کھانسی سے متاثر ہو کر گھر پہونچا تو حسب معمول سمجھا گیا تاہم یہ کھانسی موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ کھانسی میں اضافہ پر شاد نگر اور بعد میں حیدرآباد میں علاج کے لیے سرگرداں ہوگئے ۔ اس دوران پتہ چلا کے چندرا مولی ( دق ) ٹی بی سے متاثر ہے ۔ علاج و معالجہ کے لیے اپنے گھر بار کو بھی خیرباد کرناپڑا تاہم اس کے بھی خاطر خواہ مثبت نتائج برآمد نہیں ہوئے ۔ رنگاریڈی ضلع کے مختلف مواضعات جیسے الکٹہ، رنگم پلی ، چولہ پلی ، کمسنی پلی اور پیرالہ گوڑہ کے بھی کئی حیرت ناک اور قابل فکر تاریخی حقیقتیں ہیں ۔ یہ مواضعات عام طور پر بیواگان کے مقامات سمجھے جاتے ہیں کیوں کہ یہاں کی اکثر خواتین اپنے شوہروں کی زندگیوں سے محروم ہیں ۔ جب کہ خواتین کی اکثریت نے بھی Silicosis کی وجہ سے متاثر ہوگئیں ۔ ان تمام کا تعلق غریب اور پسماندہ طبقات سے تعلق رکھتی ہیں ۔ Silicosis ایک ایسا مرض ہے جس کا فوری طور پر طبی علاج نہ کروایا جائے تو یہ جان لیوا ثابت ہوتا ہے ۔ سال 1965 تا 1974 کے درمیان منرل ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے تحت اس معدنیات کو چلایا گیا ۔ جس وقت یہاں کی عوام متاثر ہونے کی اطلاعات عام ہوئیں تو اس کمپنی کو بند کردیا گیا تاہم اب تلنگانہ اسٹیٹ منرل ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے تحت قائم ہے ۔ کمپنی کے بند ہونے تک یہاں کی حالات کافی خراب ہوچکے تھے ۔ موضع کے افراد کا کہنا ہے کہ تقریبا 350 ورکرس معدنیات میں برسر ملازم تھے جن کی اکثریت متاثر تھے ۔ 1970 کے ابتدائی دنوں میں اس وقت احتیاطی تدابیر پر توجہ دی گئی جب ملازمین متاثر ہورہے تھے چولہ پلی اور الکٹہ میں گرمی شدید اور غیر معمول رہتی ہے ۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہاں کے مزدوروں کی ذمہ داری پر مشتمل قانون سیکشن 25-0 پر مائینس ریگولیشن 1961 پر موثر عمل آوری کو نظر انداز کردیا گیا ہے ۔ بنجارہ ڈیولپمنٹ سوسائٹی غیر سرکاری تنظیم کے ایم سامبا شیوا راؤ نے بتایا کہ کمپنی کو چاہئے کہ وہ اپنے ملازمین کی صحت و سلامتی کا پورا خیال کریں ۔ جب کہ علاج و معالجہ کے لیے وقار آباد میں قائم ٹی بی ہاسپٹل سے مریضوں کو 50 کیلو میٹر کا فاصلہ طئے کرنا ایک دشوار گذار مسئلہ ہے اور یہاں کے ڈاکٹرس بھی Silicosis جیسے مرض کی نشاندہی میں ناکام ہوگئے ہیں ۔ کمپنی کے ملازمین علاج و معالجہ کے لیے تقریبا دو دہوں سے قانونی لڑائی لڑ رہے ہیں ۔ مسٹر راؤ نے اس بات کا احساس ظاہر کیا کہ تقریبا 40 سال سے یہاں کی عوام متعدد امراض کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی کسمپرسی کا شکار ہیں اور وہ حکومت سے امداد کے منتظر ہیں ۔۔