تلنگانہ کی سیاست میں مسلمانوں کی اہمیت ‘ ہر جماعت تائید حاصل کرنے کوشاں

,

   

بی آر ایس کا مجلس پر انحصار ، کانگریس کا مسلم مذہبی تنظیموں سے رابطہ ، بی جے پی ہندو ووٹ متحد کرنے میں مصروف

حیدرآباد 30 ستمبر ( سیاست نیوز ) ریاست کی سیاست فی الوقت اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ارد گرد گھوم رہی ہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ تلنگانہ کے 119 اسمبلی حلقوں میں 40 سے زیادہ حلقوں میں مسلمانوں کا فیصلہ کن موقف ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان کسی بھی جماعت کو اقتدار پر بٹھانے اور اقتدار سے محروم کرنے میں اہم رول ادا کرسکتے ہیں ۔ کرناٹک میں مسلمانوں نے جس اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے وہ ملک بھر میں مثالی اقدام بن گیا ہے ۔ جس کے بعد تلنگانہ میں بھی سیاسی جماعتوں کے پاس مسلم اقلیت کی اہمیت میں اضافہ ہوگیا ہے اور ہر جماعت اقلیتوں کی تائید حاصل کرنے نت نئے طریقے استعمال کررہی ہے ۔ 10 سال سے برسر اقتدار بی آر ایس تیسری مرتبہ اقتدار حاصل کرنے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے ۔ حالانکہ چیف منسٹر کے سی آر نے 115 امیدواروں کا اعلان کردیا ہے ۔ سوائے موجودہ رکن اسمبلی عامر شکیل ( بودھن ) کے اضلاع میں کسی مسلم قائد کو امیدوار نہیں بنایا ۔ صرف ضابطہ کی تکمیل کیلئے پرانے شہر سے برائے نام دو مسلم امیدواروں کو انتخابی میدان میں اتارا گیا ہے ۔ بی آر ایس ابھی 5 امیدواروں کا اعلان کرنے والی ہے مگر ان میں بھی کسی مسلم قائد کو امیدوار بنانے کے دور دور تک امکانات نہیں ہیں ۔ بی آر ایس مسلم ووٹوں کیلئے صرف مجلس پر انحصار کررہی ہے ۔ اس کو یقین ہے مجلس کی تائید سے سارے مسلم ووٹ بی آر ایس کی جھولی میں آجائیں گے ۔ حالیہ دنوں میں بی آر ایس اور مجلس نے ایک دوسرے کا ساتھ دینے کا باضابطہ اعلان کیا ہے ۔ اضلاع اور چند میونسپل کارپوریشنس پر مجلس کے کارپوریٹرس اور کونسلرس بھی ہیں بی آر ایس کو یقین ہے مجلس کی تائید پر تمام مسلم ووٹ انہیں حاصل ہونگے ۔ کریم نگر ، محبوب نگر ، عادل آباد اور نظام آباد میں بی آر ایس اور مجلس قائدین کے درمیان نظریاتی اختلافات تھے ۔ چیف منسٹر کے سی آر اور بی آر ایس ورکنگ صدر کے ٹی آر کی درخواست پر صدر مجلس اسد الدین اویسی نے جن اضلاع میں بی آر ایس اور مجلس قائدین میں اختلافات تھے انہیں حیدرآباد طلب کرکے مصالحت میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ اب دیکھنا ہے یہ کوشش بی آر ایس کیلئے کتنی سازگار ثابت ہوسکتی ہے ۔ کانگریس ‘مجلس کو بی جے پی کی بی ٹیم قرار دیتی ہے ۔ کانگریس لیڈر راہول گاندھی نے ورکنگ کمیٹی کے اجلاس جو حیدرآباد میں ہوا تھا مجلس کے خلاف سخت موقف اختیار کرنے کی تلنگانہ قائدین کو ہدایت دی ہے ۔ نکوگوڑہ جلسہ سے خطاب میں بی جے پی ۔ بی آر ایس اور مجلس الگ نہیں بلکہ ایک ہونے کا الزام عائد کیا ہے ۔ جس کے بعد صدر مجلس اسد الدین اویسی نے راہول گاندھی کو حیدرآباد سے مقابلہ کا چیلنج کیا تھا ۔ پھر کانگریس قائدین نے بھی صدر مجلس کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا ۔ کانگریس ‘مسلم مذہبی ، سماجی اور رضاکارانہ تنظیموں سے رابطہ میں آگئی ہے اور ان کی مدد سے مسلم ووٹرس کو کانگریس کی جانب راغب کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔ شہر حیدرآباد کے علاوہ اضلاع سطح پر بھی تنظیموں سے رابطہ بنایا جارہا ہے ۔ راست عوام کو اعتماد میں لینے بھی کوشش ہو رہی ہے ۔ کانگریس مسلمانوں سے قریب ہونے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے ۔ جبکہ ریاست میں ڈبل انجن سرکار کا دعویٰ کرنے والی بی جے پی ہندو ووٹوں کو متحد کرنے پر زور لگا رہی ۔ مجلس کی بی آر ایس سے دوستی کو ہندوؤں میں پیش کرکے فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہی ہے ۔ اس کے علاوہ قومی شعلہ بیان قائدین کو تلنگانہ میں اتارنے کی تیاری کررہی ہے ۔ ہندوتوا نعرہ کے جذبہ کو عوام میں لیجانے کام کررہی ہے ۔ بی جے پی امیدواروں کی کامیابی کو یقینی بنانے آر ایس ایس بھی متحرک ہوگئی ہے ۔ بی جے پی ریاست میں ہر مسئلہ کو مذہبی بالخصوص ہندو مسلم کا رنگ دینے کا کوئی بھی موقع ضائع کرنے تیار نہیں ہے ۔ انتخابات سے عین قبل نظام حکومت کے خلاف بنائی گئی فلم ’ رضاکار ‘ ریلیز کرنے کی تیاری کررہی ہے ۔ ریاست میں گذشتہ 10 سال سے بی آر ایس کی حکومت ہے مخالف حکومت لہر فطری بات ہے ۔ 2018 انتخابات میں اقلیتوں کے 80 فیصد ووٹ بی آر ایس کو اور 20 فیصد کانگریس کو ملے تھے۔ ان پانچ سال میں حالات یکسر تبدیل ہوگئے ہیں ۔ مسلم اقلیت کا زیادہ تر جھکاؤ کانگریس کی طرف نظر آرہا ہے ۔ حکمران بی آر ایس اور اپوزیشن جماعتیں اپنے انتخابی منشور کی تیاری میں مصروف ہیں ۔ کونسی پارٹی کا منشور کتنا پرکشش رہتا ہے وہ بھی کافی اہمیت رکھتا ہے۔۔ ن