تلنگانہ کے مسلمان ہر معاملے میں نظر انداز ، 9 سال قبل کیا گیا وعدہ فراموش

   

اجمیر شریف میں زائرین کیلئے رباط کا وعدہ کبھی پورا نہ ہونے والا خواب بن کر رہ گیا ۔ یو پی و کیرالا مندروں کو جانے والوں کیلئے گیسٹ ہاوز کی تعمیر
حیدرآباد /10 مارچ ( سیاست نیوز ) ملک میں بڑھ رہی فرقہ پرستی کا شکار صرف بے روزگار نوجوان یا مذہبی شدت پسند نہیں ہو رہے ہیں۔ بلکہ ریاستی حکومتیں بھی فرقہ پرستی کے زہر سے آلودہ ہونے لگی ہیں اور بی جے پی سے مقابلہ کیلئے خود کو بی جے پی سے بڑا فرقہ پرست قرار دینے کی کوشش میں مصروف ہے ۔ اپوزیشن سیاسی جماعتیں نفرت کا مقابلہ محبت سے کرنے کے بجائے ’’ لوہے کو لوہا کاٹتا ہے ‘‘ کے نظریہ پر عمل کرتے ہوئے غیر محسوس طریقہ سے مسلمانوں کو نقصان پہونچا رہے ہیں ۔ نرم ہندوتوا پر عمل کے معاملے میں تلنگانہ کی بی آر ایس حکومت پیش پیش رہی ہے ۔ جاریہ سال کے اوا خر میں اسمبلی کے انتخابات مقرر ہے ۔ یہ بھی قیاس آرائیاں ہیں کہ چیف منسٹر کے سی آر قبل از وقت انتخابات پر بھی سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔ تلنگانہ میں اپنے آپ کو بی جے پی سے بڑا ہندو قرار دینے چیف منسٹر کے سی آر سرکاری خزانے سے ہزاروں کروڑ ہا روپئے خرچ کرکے منادر تعمیر کر رہے ہیں ۔ ریاست کی مختلف مندروں کیلئے 500 تا 1000 کروڑ روپئے خرچ کر رہے ہیں ۔ منادر کو اراضیات مختص کرکے انہیں سیاحتی مقام کی طرز پر ترقی دے رہی ہیں۔ یادادری ویملواڑہ ، بھدرادری کے علاوہ دوسری منادر کی ترقی کیلئے اعلی سطحی اجلاس طلب کیا جارہا ہے ۔ پھر ان منادر کا دورہ کرکے ترقیاتی کاموں کی حکمت عملی تیار کی جارہی ہے ۔ کئی کیلو سونا منادر پر چڑھایا جارہا ہے ۔ کل جمعرات کو پرگتی بھون میں کابینہ اجلاس منعقد ہوا ۔ جس میں کئی فیصلے کئے گئے ۔ ساتھ ہی اترپردیش کے کاشی مندر میں تلنگانہ کے بھکتوں کو قیام کی سہولت فراہم کرنے 25 کروڑ روپئے کے مصارف سے ایک گیسٹ ہاوز اور کیرالہ کی سبری مالا مندر یاتریوں کیلئے بھی 25 کروڑ روپئے کے مصارف سے گیسٹ ہاوز تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ یاد رہے کہ 2014 میں علحدہ تلنگانہ کی تشکیل کے بعد حکومت تشکیل دینے والے چیف منسٹر کے سی آر نے تلنگانہ کے زائرین کو اجمیر میں رباط کے قیام کیلئے 5 کروڑ روپئے کا اعلان کیا تھا ۔ دوسری معیاد کیلئے مسلمانوں نے چیف منسٹر کے سی آر کی مدد کی ۔ اس طرح 9 سال گذر گئے چیف منسٹر نے اجمیر میں رباط کے وعدے کو پورا نہیں کیا ہے۔ اس سے اندازہ ہو رہاہے کہ بی آر ایس کو مسلمانوں کے ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے ۔ بی جے پی پر بی آر ایس کو فوقیت دینے ا پنی ساری توجہ اکثریتی طبقہ پر مرکوز کرچکی ہے ۔ اس کے علاوہ درگاہ حضرت جہانگیر پیراں کی ترقی کیلئے صرف 50 کروڑ کا اعلان کیا گیا ۔ اس پر ابھی تک کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ۔ عالمی طرز کا اسلامک سنٹر قائم کرنے کا اعلان کیا گیا اس کو بھی فراموش کردیا گیا ۔ انیس الغربا یتیم خانہ کی تعمیرات انتہائی سست ہیں ۔ اس پر توجہ نہیں ہے ۔ وقف بورڈ ریکارڈ کیوں ضبط کیا گیا اس پر تجسس ہے ۔ ایوانوں میں مسلمانوں کی نمائندگی گھٹتی جارہی ہے اس میں اضافہ پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے ۔ جس سے مسلمانوں میں بی آر ایس کے خلاف مایوسی اور ناراضگی بڑھتی جارہی ہے ۔ ن