موجودہ ارکان کے خلاف ناراضگی، کانگریس میں شمولیت کی دھمکیاں ، بدعنوانیوں میں ملوث ارکان خطرہ میں
حیدرآباد ۔14۔ جولائی (سیاست نیوز) برسر اقتدار بی آر ایس کے لئے اسمبلی انتخابات میں امیدواروں کا انتخاب کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔ پارٹی میں داخلی اختلافات اور موجودہ ارکان اسمبلی کے خلاف ناراضگی کے نتیجہ میں بی آر ایس قیادت تقریباً 30 اسمبلی حلقہ جات میں امیدواروں کے انتخاب پر الجھن کا شکار ہے۔ موجودہ ارکان اسمبلی کے خلاف ان حلقوں میں نہ صرف عوام بلکہ پارٹی کیڈر میں سخت ناراضگی کے نتیجہ میں صدر بی آر ایس کے چندر شیکھر راؤ نے متبادل ناموں پر غور کرنا شروع کردیا ہے ۔ مسلسل دو مرتبہ کامیاب ہونے والے ارکان اسمبلی کی جگہ نوجوان قائدین کو موقع دینے کیلئے قیادت پر دباؤ بڑھنے لگا ہے ۔ جن ارکان اسمبلی کے خلاف کیڈر میں ناراضگی ہے ، ان میں زیادہ تر وہ ارکان ہیں جو کانگریس کے ٹکٹ پر منتخب ہونے کے بعد بی آر ایس میں شامل ہوئے تھے۔ ایسے اسمبلی حلقہ جات میں 2001 ء سے خدمات انجام دینے والے قائدین کو تیسری مرتبہ ٹکٹ سے محروم کا خوف ستارہا ہے ۔ چیف منسٹر کے سی آر غیر متنازعہ حلقہ جات کے امیدواروں کی پہلی فہرست جاریہ ماہ کے اواخر میں جاری کرتے ہوئے انتخابی سرگرمیوں میں بی آر ایس کو سرفہرست ثابت کرنے کے خواہاں ہیں لیکن پارٹی کے داخلی اختلافات میں فہرست کی اجرائی کے معاملہ میں رکاوٹ پیدا کردی ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق جن 30 اسمبلی حلقہ جات میں امیدواروں کا انتخاب دشوار کن ہوچکا ہے ، ان میں اپل ، میدک ، راجندر نگر ، مہیشورم ، کتہ گوڑم ، تانڈور ، محبوب نگر ، جوبلی ہلز ، حضور آباد ، شیر لنگم پلی ، خیریت آباد ، عنبر پیٹ، ویملواڑہ ، خانہ پور ، ورنگل ایسٹ ، ورنگل ویسٹ ، ناگرجنا ساگر، ظہیر آباد ، کلواکرتی ، ایل بی نگر اور جنگاؤں شامل ہیں۔ان حلقہ جات میں ایک سے زائد ٹکٹ کے خواہشمند ہیں جنہوں نے موجودہ ارکان کی تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے۔ ٹکٹ کے خواہشمند قائدین نے ہائی کمان کو انتباہ دیا ہے کہ اگر اس مرتبہ امیدوار تبدیل نہیں کیا گیا تو وہ کانگریس میں شمولیت اختیار کرلیں گے ۔ چیف منسٹر کے سی آر کو اندیشہ ہے کہ اگر فہرست کی اجرائی میں جلد بازی سے کام لیا جائے تو کئی حلقہ جات میں بی آر ایس سے انحراف شروع ہوجائے گا۔ ان حالات میں کے سی آر نے ورکنگ پریسیڈنٹ کے ٹی آر کو ذمہ داری ہے کہ ناراض عناصر سے بات چیت کرتے ہوئے تنازعہ کی یکسوئی کریں تاکہ آئندہ انتخابات میں پارٹی کے امکانات متاثر نہ ہوں۔ چیف منسٹر نے اعلان کیا تھا کہ سروے رپورٹ کی بنیاد پر امیدواروں کا انتخاب کیا جائے گا، اس کے علاوہ پارٹی اجلاس میں انہوں نے 25 ارکان اسمبلی کی نشاندہی کی جنہوں نے دلت بندھو اسکیم کے استفادہ کنندگان سے کمیشن کے طور پر تین لاکھ روپئے حاصل کئے۔ جہاں تک ارکان اسمبلی کی کارکردگی کے بارے میں سروے سوال ہے، کے سی آر نے کئی خانگی اداروں سے سروے رپورٹ حاصل کی جن میں 30 تا 35 حلقہ جات میں سخت مقابلہ کی پیش قیاسی کی گئی ہے ۔ ناراض قائدین کا کہنا ہے کہ جن ارکان نے دلت بندھو اسکیم میں کمیشن حاصل کیا ہے، انہیں دوبارہ ٹکٹ ہرگز نہ دیا جائے۔ چیف منسٹر نے کے ٹی راما راؤ کے علاوہ ہریش راؤ ، مدھو سدن چاری اور بی ونود کمار کو ذمہ داری ہے کہ وہ امیدواروں کے انتخاب کے بحران کا حل تلاش کرنے کی مساعی کریں۔ ناراض سرگرمیوں کا اندازہ کے سی آر کو اس وقت ہوا جب دو دن قبل پارٹی کی جانب سے کانگریس کے صدر ریونت ریڈی کے خلاف احتجاج کی اپیل کے باوجود کئی اضلاع میں سینئر قائدین نے احتجاج میں حصہ نہیں لیا۔ بعض وزراء بھی مختلف بہانے بناکر احتجاج میں شامل نہیں ہوئے۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ تنظیمی سطح پر ناراض سرگرمیوں کا اثر راست طور پر الیکشن پر پڑے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ چیف منسٹر امیدواروں کے انتخاب کے طریقہ کار کو تبدیل کریں گے یا پھر ناراض سرگرمیوں کو نظر انداز کردیں گے ۔ جاریہ ماہ کے اواخر میں پہلی فہرست کی اجرائی پر سینئر قائدین میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے ۔ پارٹی کیڈر کو کانگریس اور بی جے پی میں شمولیت سے روکنے کیلئے کے سی آر متبادل حکمت عملی تیار کر رہے ہیں۔ر