تمام شعبہ جات میں خواتین کی خدمات کے انمٹ نقوش

   

عثمانیہ یونیورسٹی کی پہلی بی اے اور پی ایچ ڈی کامیاب خواتین ہی ہیں، سنگاریڈی میں سمینار، مختلف دانشوروں کا احساس

سنگاریڈی : گورنمنٹ ڈگری کالج فار ویمنس سنگاریڈی کے شعبہ اردو کے زیر اہتمام ایک روزہ قومی سمینار بعنوان اردو زبان و ادب کے فروغ میں تلنگانہ کی خواتین کا حصہ ڈاکٹر حمیرہ سعید پر نسپل کالج و ڈائر کٹر سمینار کی نگرانی میں کامیاب انعقاد عمل میں آیا جس میں ملک کی مختلف یونیو ر سٹیز کے پرو فیسرس اور اسکالرس نے شرکت کر تے ہوئے مقا لہ جات پیش کئے ۔ سمینار کے افتتاحی سیشن کی صدارت پروفیسر بیگ احسا س سابق صدر شعبہ اردو یونیور سٹی آف حیدرآباد نے کی ۔ پر وفیسر فا طمہ بیگم پروین سابق صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیور سٹی نے اپنے کلیدی خطبہ میں کہا کہ دنیا کی نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے اور خواتین ہر شعبہ حیات میں اپنی منفرد خدمات کے انمٹ نقوش ثبت کر رہی ہے ۔ تاریخ ادب ہی نہیں بلکہ سائنس و ٹکنا لوجی ‘ اڈمنسٹریشن ‘ فلسفہ یعنی زندگی کے ہر شعبہ میں خواتین نے اپنی قا بلیت اور صلا حیتوں کا لو ہا منوایا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ زبان اورادب کا تہذیب سے گہرا رشتہ ہوتا ہے ۔ تربیت صحیح ہو تو زبان ہی فروغ پا تی ہے ۔ تعلیم و تربیت کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہے چنا نچہ تعلیم نسواں بہترین سماج کی تشکیل کی ضامن ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دکن میں ادب کے فروغ میں خواتین نے قلی قطب شاہ کے دور سے حصہ لیا ۔ حیات بخشی بیگم اور انکی دختر خدیجہ سلطانہ نے ادب کی خوب پذیرائی کی ۔ صغراء ہمایوں مرزا 14 کتابوں کی مصنفہ تھیں ۔ انہوں نے اپنی جائداد کو تعلیم نسواں کے لئے وقف کر لیا اور آج بھی وہ گرلز اسکول چل رہا ہے ۔ عثمانیہ یونیور سٹی کے قیام کے بعد پہلی بی اے کامیاب خاتو ن نو شابہ خاتون اور پہلی پی ایچ ڈی پروفیسر رافیعہ سلطانہ نے کی ۔ تمام اصناف ادب میں دکنی خواتین نے کام کیا ۔ انہوں نے اردو طالبات سے کہا کہ وہ شعر و ادب کے میدان میں آگے آئیں اور زبان اردو کو نیا قلم ‘ نیا خون اور جوش عطا کریں ۔ خواتین رقیق القلم ہو تی ہیں اور خواتین کا ادب میں سرگرم ہونے سے زبان اردو کا مستقبل تا بنک ہو گا۔پروفیسر فضل اللہ مکرم نے کہا کہ دکنی خواتین شعر و ادب میں نمایاں کام کیا ہے لیکن شعبہ صحافت میں ان کی کمی محسوس ہو تی ہے خواتین کو شعبہ صحافت میں اپنے جوہر دکھا نے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا کہ انسان اپنی دلی کیفیات ‘ جذبات اور احساسات کو شعر و ادب کے ذریعہ بخوبی پیش کر سکتا ہے دکھ ‘ درد ‘ رنج والم‘ غم اور آنسوئوں کو الفاظ کے ذریعہ اظہار کر نے سے ذہنی دبائو میں کمی ہو تی ہے۔شعر و ادب میں دلچسپی اور بولنے و لکھنے سے انسان منفی سے مثبت فکر وعمل میں داخل ہو تا ہے ڈاکٹر ایم پرا وینا پر نسپل تارا گورنمنٹ ڈگری کالج سنگاریڈی نے کہا کہ اردو افسانہ نگار جیلانی با نو کی ناول پر مشہور فلم ساز شیام بینگل نے فلم بنائی جس سے دکنی خواتین اردو قلم کاروں کی قومی سطح پر مقبو لیت کا اندازہ ہو تا ہے پروفیسر ایس اے شکور صدر شعبہ اردو عثمانیہ یو نیورسٹی نے کہا کہ اردو ادب میں دکنی خواتین کا سفر ساڑھے چار سو سال سے زائدعرصہ پر محیط ہے ماہ لقا بائی چندہ ‘ حیات بخشی بیگم ‘ لطف النساء امتیاز ‘ صغرا ہما یوں مرزا ‘ جیلانی با نو ‘ رفیعہ منظور الا مین ‘ فا طمہ تاج ‘ زینت ساجدہ‘ پر وفیسر سیدہ جعفر ‘ پروفیسر رافیعہ سلطانہ کے علاوہ سینکڑوں خواتین نے اردو ادب کی آبیا ری کی ہے خواتین نے نا صرف شعر وادب بلکہ تمام شعبہ حیات میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں پروفیسر بیگ احساس سابق صدر شعبہ اردو یونیور سٹی آف حیدرآباد نے صدا رتی خطاب میں کہا کہ موجودہ دور میں آفا قیت کی جگہ علاقا ئیت کو تر جیح دی جا رہی ہے جس کی وجہ سے چھوٹے علاقوں کے ادباء و شعر اء سے وقفیت حاصل ہو رہی ہے گو لکنڈہ سے گلبرگہ تک کا علاقہ ادب کیلئے بڑازرخیز رہا ہے اس علاقہ میں زبان اردو کو زبر دست فروغ حاصل ہوا زبان ہمیشہ مادری ہو تی ہے پدری نہیں ہو تی جس سے زبان میں عورت کی اہمیت و فضیلت ظاہر ہو تی ہے۔علاقہ دکن میں تعلیم نسواں پر ابتداء سے ہی توجہ دی گئی اور خواتین نے ادب میں مردں کے شانہ بشانہ کام کیا ہے جیلا نی بانو اور شیام بینگل نظام کالج کے سپوت ہیں اور تلنگانہ کو ان پر ناز ہے ڈاکٹر حمیرا سعید نے خطبہ استقبا لیہ پڑھا ڈاکٹر عطیہ مجیب عارفی نے نظامت کی سردار جیو تی اسسٹنٹ پروفیسر ہندی نے شکر یہ ادا کیا تکنیکی اجلاس میں پروفیسر س اور اسکالر س نے مقالہ جات پیش کئے اختتا می تقریب میں شرکاء کو سرٹیفیکٹس دیئے گئے ۔ اس موقع پر ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی صدر شعبہ اردو این ٹی آر گورنمنٹ ڈگری کالج محبوب نگر اور دیگر موجود تھے۔