طرزِ کہن پر اَڑنے کے بجائے آئین نو کو اختیار کریں
مسلمانوں کو بدنام کرنے کیلئے ہر طرح کے میڈیا کا استعمال
مسلمان ہر طرح کے حملے کا جواب دینے تیار مگر …
میڈیا کے استعمال میں کوتاہی کا سلسلہ بند ہونا ناگزیر
محمد مبشر الدین خرم
دُنیا بھر میں مواصلات کے کئی طریقے منظر عام پر آتے جا رہے ہیں اور کئی طرح کے میڈیا کا استعمال عروج پر ہے۔زمانۂ قدیم میں بھی مختلف میڈیا کا استعمال ہر گوشہ کی جانب سے کیا جاتا رہا اور زمانہ کی رفتار کے ساتھ ساتھ میڈیا کے استعمال کے طریقۂ کار تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتے گئے اور بیشتر اقوام نے ان نئے طریقوں کو اختیار کرنے میں کوتاہی نہیں کی بلکہ یہود اور نصاریٰ کی جانب سے ان طریقوں میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کو قبول کرتے ہوئے اس سے ہم آہنگ ہونے کی دوڑ شروع ہوگئی اور اس دوڑ کے دوران ان اقوام نے خود کو مظلوم بھی ثابت کیا اور اپنے عوام میں شعور اُجاگر کرنے کی بھی کامیاب کوشش کی جس کے نتیجہ میں نفرت کو بڑھاوا ملنے کے ساتھ ساتھ مظلوم اور ظالم کے درمیان فرق معمولی ہوکررہ گیا اور دنیا نے انسانیت کی دہائی دیتے ہوئے ظالم کو بھی مظلوم قرار دینا شروع کردیا ‘اتنا ہی نہیں جن کی زمین چھینی گئی انہیں ’’دہشت گرد‘‘ کہا گیا اور جن کے گھر اُجاڑے گئے انہیں ’قابض ‘قرار دیا گیا۔بم برسانے والوں کو ’انسانیت کے محافظ‘ کے طور پر پیش کیا گیا اور ہزاروں ٹن بموں کے نیچے دَب کر ہلاک ہونے والوں کو ’دہشت گرد‘ قرار دینے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی ۔ میڈیا کے استعمال میں جن قوموں نے خود کو ہم آہنگ رکھا ان قوموں نے اپنے مقاصد کے حصول میں بڑی کامیابی حاصل کی اور ان کی اس کامیابی پر وہ مظلوم صرف اشک شوئی کرتے رہ گئے جنہیں دنیا میں اللہ تعالیٰ نے اقامت دین کی ذمہ داری کے لئے بھیجا تھا ۔
میڈیا کے استعمال کا مطلب صرف ذرائع ابلاغ ‘ خبروں کی ترسیل‘ سوشل میڈیا اور نیوزٹی وی چیانل نہیں بلکہ وہ ذرائع ابلاغ ہے جس کے ذریعہ نظریہ سازی کا کام انجام دیا جاتا ہے اور ہر وہ طریقۂ کار ہے جو کہ عوام پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔ طویل عرصہ تک اخبار کی اشاعت اور اعلانات‘ تقاریر اور سمینار کے علاوہ مذاکرات کے ذریعہ عوام میں شعور اُجاگر کیا جاتا رہا لیکن جیسے جیسے وقت تبدیل ہوتا گیا تو ٹیلی ویژن چیانل اور فلموں نے ایک نئے میڈیا کا کردار ادا کرنا شروع کیا جن کا بہتر انداز میں مخالف مسلم اقوام نے استعمال شروع کیا اورہم مسلمان اس دور میں ٹیلی ویژن دیکھنا جائز ہے یا نہیں ، کی بحث کرتے رہے ‘اس کے بعد ایک ایسا دور آیا کہ میڈیا کے نیوز چیانلس منظر عام پر آنے لگے اور اس وقت اس کی اہمیت کا اندازہ ہونے لگا اور کہا جانے لگا ہے کہ نیوز میڈیا میں جو پروپگنڈہ کیا جارہا ہے اس کا مؤثر جواب دینے کیلئے نیوز دیکھنی چاہئے اور نیوز میڈیا پر تبصرے کئے جانے چاہئے لیکن اس وقت تک کافی دیر ہوچکی تھی لیکن ’’دیر آید درست آید‘‘ کے مصداق نیوز میڈیا چیانلس میں چند افراد نے رسائی حاصل کرلی لیکن وہ اتنے مؤثر ثابت نہیں ہوئے کہ ان کی بات کو اہمیت حاصل ہواور جن میڈیا گھرانوں نے یہ ادارے قائم کئے تھے ،اُن کے نظریات نے بھی بااثر افراد کو اس نظریہ ساز میڈیا سے دُور رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا جس کا خمیازہ آج دنیا بھر میں مسلمان بھگت رہے ہیں اور دنیا کے بیشتر ممالک کی جانب سے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی جا رہی ہے کیونکہ دنیا کو یہ میڈیا ادارے یہ تاثر دینے میں کامیاب ہوچکے ہیں کہ مسلمانوں پر ہونے والے مظالم واجبی ہیں ۔
ذرائع ابلاغ نے موجودہ دور میں اس حد تک ترقی کرلی ہے کہ اب ہر کسی کے ہاتھ میں سوشل میڈیا موجود ہے اور ہر کوئی اس کا استعمال کر رہا ہے لیکن جن ہاتھوں میں سوشل میڈیا کا ہتھیار موجود ہے وہ ہاتھ کتنے قابل ہیں اور وہ اس کا کیا اِستعمال کر رہے ہیں یہ ایک انتہائی اہم سوال ہے اور اگر اس کا جائز ہ لیا جائے تو ہماری نئی نسل سوشل میڈیا کا استعمال وقت گذاری اور غیر سنجیدہ حرکات کیلئے کر رہی ہے جبکہ دیگر اقوام کی نسلوں کی سوشل میڈیا پر سرگرمیوں کا جائزہ لیا جائے تو ان کی سرگرمیاں غیر معمولی نظر آئیں گی کیونکہ وہ وقت گذاری کیلئے نہیں بلکہ نظر یہ سازی کیلئے اس نئے میڈیا کا بھرپور استعمال کر رہے ہیں اور لوگوں تک اپنے ان نظریات کو بہتر انداز میں پیش کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہورہے ہیں اور دنیا میں ان کو پذیرائی بھی حاصل ہورہی ہے کیونکہ وہ ایسے نظریات کو دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں جو کہ دنیا کیلئے کارآمد ہونے کے ساتھ ساتھ ان مقاصد کی تکمیل کا بھی ذریعہ بن رہے ہیں جو کہ اب تک خفیہ تصور کئے جاتے تھے لیکن اب ببانگ دُہل اس بات کی کوشش کی جا رہی ہے کہ عالمی سطح پر مسلمانوں کو غیر متعلق قوم کا موقف دیا جائے جس کی کئی ایک مثالیں موجود ہیں جن میں ماضی قریب کی مثال کا اگر جائزہ لیا جائے تو میانمار (برما) کے حالات ہیں جہاں مسلمانوں کی نسل کشی کے باوجود بھی کسی ملک نے انسانیت کے تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ بعض ممالک کی جانب سے ان حالات پر اشک شوئی کی گئی اور خاموشی اختیار کرلی گئی لیکن کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے جس کے نتیجہ میں مخالف مسلم طاقتوں کی نہ صرف حوصلہ افز ائی ہوئی بلکہ ان کی جانب سے ان ممالک کی مذمت کی جانے لگی جن ممالک نے شام سے غریب الوطنی کا شکار ہونے والوں کو پناہ دینے کا فیصلہ کیا اور انسانیت کو زندہ رکھنے کی کوشش کی اور اب انہیں بدنام کرنے کیلئے نئے دور کے میڈیا کا استعمال کیا جا رہاہے۔
اعلانات‘ ڈھنڈورا پیٹنے کے ذریعہ ترسیل کا کام انجام دینے والے ذرائع ابلاغ کا سفر اخبار‘ ٹی وی ، فلم ، نیوز چیانل، کارٹون‘ سوشل میڈیا کے بعد اب ’ویب سیریز‘(Web Series) کے نام پر سنسر کے بغیر مواد عوام تک پہنچانے کیلئے کمپنیوں کا قیام شروع ہوچکا ہے اور عالمی سطح پر یہ کمپنیاں تیزی سے شہرت حاصل کر رہی ہیں اور بڑے بڑے فلم سازوں کی جانب سے فلم تیار کرتے ہوئے ان کمپنیوں کو ویب سیریز فروخت کی جار ہی ہیں اور یہ کمپنیاں بھاری قیمت اداکرتے ہوئے یہ سیریز خرید رہی ہیں جنہیں کسی قسم کے سنسر بورڈ کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے بلکہ دنیا بھر میں کہیں بھی ان کی نمائش ممکن ہے ۔ دنیا میں فی الحال YouTube عام ذریعہ تصور کیا جا رہاہے کیونکہ یہ مفت ہے لیکن NETFLIX‘Amazon Prime اور Hotstar ایسے ذرائع ہیں جو کہ مفت نہیں ہیں بلکہ ان پر موجود مواد کو دیکھنے کیلئے رقم ادا کرنی پڑتی ہے اور ان پر جو مواود جاری کیا جا رہا ہے وہ ذہن سازی میں کلیدی کردار اداکرنے والا مواد ہے چونکہ اس مواد یا ویب سیریز کو دیکھنے کے لئے رقم ادا کرنی ہوتی ہے تو یہ عام شہری جو یو ٹیوب یا سوشل میڈیا پر موجود مزاحیہ اور دیگر ویڈیوز کا مشاہدہ کرتے ہیں ان تک یہ مواد نہیں پہنچتا لیکن جو اس مواد یا ویب سیریز کا مشاہدہ کرتے ہیں وہ ایک ایسا طبقہ ہے جو کہ سماج کا با اثر طبقہ تصور کیا جاتا ہے اور جب اس بااثر طبقہ کی ذہن سازی اس میڈیا کے استعمال کے ذریعہ کی جاتی ہے تو اس بات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سماج کے اس طبقہ کے متاثر ہونے کے کیا نتائج برآمد ہوں گے اورجب صورتحال ابتر ہوتی چلی جائے گی تو اس کا معاشرہ پر کیا اثر مرتب ہوگا۔
NETFLIX پر جو ویب سیریز کافی مشہور ہوئی ہے، اُن میں “SACRED GAMES” کے دو حصے کے علاوہ ’’غول‘‘ نامی سیریز اور ’’لیلا‘‘ شامل ہیں جن میں جو حالات اور واقعات دکھائے گئے ہیں وہ انتہائی خوفناک ہیں اور مسلمانوں سے نفرت پیدا کرنے والے ہیں لیکن اس کے باوجود اس کا کوئی اثر مسلم سماج پر نہیں ہورہا ہے بلکہ ایک سیریز میں تو مستقبل کا ہندستان دکھانے کی کوشش کی گئی ہے جس میں مسلم بستیوں کو انتہائی گندہ اور جو لوگ آریہ ورت کے ماننے والے ہیں ان کے لئے محفوظ علاقے دکھائے گئے ہیں اور جن غیر مسلم لڑکیوں نے مسلم لڑکوں سے شادی کی ان کے شدھی کرن کا بھی منظر بلکہ یہ سیریز ہی اس پر بنائی گئی ہے۔ “SACRED GAMES” میں آچاریہ اور مذہبی رہنمائی کے نام پر گرو کس طرح کے کاروبار انجام دیتے ہیں اور ان کی حرکات کیا ہوتی ہیں اس کا مشاہدہ کروایا گیا اور ایک سکھ عہدیدار کے ذریعہ اس کی تحقیقات کے دوران کی گئی ایک حرکت پر سکھوں نے ہنگامہ کیا۔ ’’غول‘‘ نامی ویب سیریز میں ’مسلم انتہا پسندی‘ کو اُجاگر کرتے ہوئے ’’غزوۂ ہند‘‘ کا تذکرہ کیا گیا اور دہشت گردوں کو اس سے جوڑ کردکھانے کی کوشش کی گئی ،اسی طرح ان ویب سیریز کے ذریعہ جو ماحول تیار کیا جا رہاہے اس منصوبہ کاشکار سماج کا ایک بااثر طبقہ ہونے لگا ہے اور اس بات کی کسی کو کوئی فکر نہیں ہے اس طبقہ کے ذریعہ کیا کوشش کی جا رہی ہے اور انہیں کس سازش کا شکار بنایا جارہا ہے۔میڈیا کے اس نئے طریقہ نے جو حالات پیدا کئے ہیں وہ درحقیقت تشویشناک ہیں لیکن ان حالات سے خوفزدہ ہونے کے بجائے حکمت عملی کی تیاری ناگزیر ہے۔
ٹیلی ویژن جائز یا ناجائز ‘ سوشل میڈیا حلال حرام‘ خبریں اور جواب منفی پروپگنڈہ کا مدلل جواب کس طرح دیا جائے، اس بحث میں مبتلا ہوئے بغیر اب اس بات کی ضرورت ہے کہ اسلام کی حقانیت کو پیش کرنے کیلئے بھی اسی میڈیا کا سہارا لیا جائے جس میڈیا کے ذریعہ مسلمانو ںکو بدنام کرنے کی سازش کی جارہی ہے ۔ تین مسلم ممالک کی جانب سے اب اس بات کا اعلان کیا جا رہاہے کہ انگریزی زبان میں اِسلامک ٹی وی چیانل شروع کیا جائے گا جبکہ یہ کام 50برس قبل ہونا چاہئے تھا۔ اب جبکہ ویب سیریز اور سوشل میڈیا کا دور ہے ، اس دورمیں اگر ان ہتھیاروں کا استعمال نہ کرتے ہوئے خود کو اس سے دُور رکھا جاتا ہے تو اس کے جو اثرات ہوں گے وہ عالمی سطح پر مسلمانوں کو مزید پسماندہ بنانے میں اہم کردار ادا کریں گے کیونکہ مسلمانوں کی موجودہ حالت میں وہ ان سازشوں کا مقابلہ کرنے کے متحمل کس طرح ہوسکتے ہیں جبکہ اُن کے خلاف کی جانے والی ان سازشوں سے ہی وہ لاعلم ہیں ۔ اگر انہیں ان حالات اور سازشوں کا مقابلہ کرنا ہے تو خودکو اس ’’سائبر جنگ‘‘ کے لئے تیار کرنا ہوگا جو دنیا ان سے لڑ رہی ہے اور وہ اس جنگ سے غافل ہیں ۔ انگریزی زبان میں ’’ہیری پوٹر‘‘ (Harry Potter)نام کی فلم نے انگریزی دنیا میں دھوم مچائی اور اس کو دیکھتے ہوئے ہندی میں ’’ہیری پوٹر‘‘ منظر عام پر لائی گئی ، اسی طرح مسلم خاندانوں میں نئی نسل ’’چھوٹابھیم ‘‘کو اور Ben10″ “کو تو جاننے لگی ہیں اور ’’بال گنیش‘‘ کو بھی ہیرو تصور کرنے لگی ہے لیکن افسوس کے ان حالات کے باوجود خود ( مسلمان) میدان عمل میں نہ آنے کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ اب راست نشانہ بنایا جانے لگا ہے اور اب بھی ہم خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں!!!٭
سلسلہ جاری …
