کورونا کی آڑ میں رام مندر کی تعمیر
کشمیر … باپ بیٹے کی رہائی یا خفیہ ساز باز
رشیدالدین
ساری دنیا میں کورونا وائرس نے انسانیت کی نیند حرام کردی ہے۔ حکمراں ہوں یا عام آدمی کہ ہر کسی کے آنکھوں میں تباہی و بربادی اور موت کا کھیل دکھائی دے رہا ہے ۔ ہندوستان بھی اس خوف سے آزاد نہیں ہے ۔ وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے اور انسانی جانوں کے اتلاف کو بچانے مرکز اور ریاستی حکومتوں نے عوام کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کرتے ہوئے گھروں میں عملاً محصور کردیا ہے ۔ ملک بھر میں 21 دن کے لاک ڈاؤن کا اعلان کرتے ہوئے غیر معلنہ ایمرجنسی جیسی صورتحال پیدا کردی گئی۔ ملک کے تمام اہم مسائل کورونا وائرس کے اثر سے کمزور پڑگئے ۔ کورونا کے خوف اور خطرہ سے ایک طرف عوامی زندگی کے لالے پڑچکے ہیں تو دوسری طرف زعفرانی طاقتیں ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل آوری میں مصروف ہیں ۔ لاک ڈاؤن کے نام پر تمام سیاسی ، سماجی اور مذہبی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی گئی لیکن چیف منسٹر اترپر دیش یوگی ادتیہ ناتھ نے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا خاموشی سے آغاز کردیا۔ سارے ملک کی توجہ کورونا وائرس اور لاک ڈاون پر مرکوز ہے، ایسے وقت ایودھیا میں مذہبی تقریب منعقد کی گئی۔ رام لالا کی مورتی کو عارضی مندر کے دوسرے حصہ میں منتقل کرتے ہوئے تعمیری کام کے آغاز کی راہ ہموار کردی گئی۔ سارے ملک کو وائرس کے نام مصروف رکھتے ہوئے مندر کی تعمیر کا آغاز کرنا محض اتفاق نہیں ہوسکتا بلکہ سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے۔ ملک گیر لاک ڈاؤن کے تحت حکومت نے تمام مذاہب کی تقاریب پر پابندی عائد کردی لیکن یوگی ادتیہ ناتھ نے آر ایس ایس اور وی ایچ پی کے ساتھ مذہبی تقریب میں حصہ لیا ۔ لاک ڈاؤن کے تحت دو افراد کے ایک ساتھ چلنے پر پابندی ہے لیکن ایودھیا کی تقریب میں اطلاعات کے مطابق 100 سے زائد افراد شریک تھے۔ مسلمانوں کے لئے نماز جمعہ میں 5 سے زائد افراد کی شرکت پر پابندی عائد کی گئی لیکن یوگی ادتیہ ناتھ کو 100 افراد کے ساتھ مذہبی رسوم ادا کرنے کی اجازت خلاف قانون نہیں تو اور کیا ہے۔ اگر ادتیہ ناتھ کا یہ اقدام غیر قانونی ہے تو ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی ؟ اگر اس طرح کی خلاف ورزی کانگریس کے کسی چیف منسٹر کی جانب سے کی جاتی تو میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا لیکن اد تیہ ناتھ کے بارے میں گودی میڈیا کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہے ۔ وائرس کے سنگین خطرہ کے باوجود یوگی کی خلاف ورزی پر مرکز اور بی جے پی دونوں میں سناٹا ہے۔ مرکزی کابینہ کے اجلاس میں ساتھی وزراء کے درمیان ایک میٹر کا فاصلہ رکھنے والے نریندر مودی کی خاموشی سے پتہ چلتا ہے کہ اس تقریب کو وزیراعظم کی اخلاقی تائید حاصل تھی۔ شائد یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نے ایودھیا کی تقریب سے ایک دن قبل قوم سے خطاب کرتے ہوئے 21 دن کے لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا ۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ لاک ڈاؤن اگرچہ کورونا وائرس کے خطر ہ سے نمٹنے کے لئے ہے لیکن ایک کام دو کاج کے مصداق رام مندر کی تعمیر خاموشی سے شروع کردی جائے گی ۔ لاک ڈاون کے سبب کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی اور نہ ہی اپوزیشن جماعتوں کو تبصرہ کا موقع ملے گا ۔ یوگی ادتیہ ناتھ نے اپنے جیب خاص سے رام مندر کی تعمیر کے لئے 11 لاکھ روپئے کا عطیہ رام جنم بھومی ٹرسٹ کو دیا جس کی نگرانی میں تعمیری کام مکمل ہوگا۔ تقریب کے بعد یوگی نے کہا کہ رام مندر کے لئے 50 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے۔ رام لالا کی منتقلی تعمیر کے پہلے مرحلہ کا آغاز ہے۔ بابری مسجد کا جس جگہ منبر اور مصلیٰ تھا ، اسی مقام پر عارضی مندر اور مورتی رکھی گئی تھی ۔ تعمیری کام بھی وہیں سے شروع ہوگا۔ کورونا وائرس کے نام پر تحدیدات اور لاک ڈاؤن کو مئی یا جون تک کسی نہ کسی انداز میں جاری رکھنے کا امکان ہے۔ سنگھ پریوار کے مطابق مندر کے ستونوں اور دیگر حصوں کی تیاری مکمل ہوچکی ہے اور اب صرف تیار شدہ چیزوں کو جوڑ کر مندر کی شکل دینا باقی ہے۔ ملک کورونا کے خوف میں مبتلا رہے گا اور شائد اسی سناٹے کے درمیان تعمیر کے بارے میں اہم پیشرفت ممکن ہے ۔ کہاں ہے ایل کے اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی جنہوں نے رام مندر کی تحریک کی قیادت کی تھی۔ اڈوانی نے رتھ یاترا کے ذریعہ ماحول کو بگاڑنے کا کام کیا ۔ جہاں جہاں سے رتھ گزرا اپنے پیچھے فسادات کی تباہ کاریاں چھوڑیں۔ بابری مسجد شہادت کے ذمہ دار اپنے انجام کو پہنچ رہے ہیں۔ جس رتھ یاترا نے بی جے پی کی سیاسی ترقی میں کلیدی رول ادا کیا اسی رتھ یاترا کے ماسٹر مائینڈ آج اپنی پارٹی میں اچھوت بن کر ذلت و رسوائی کی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ کہاں ہے اوما بھارتی اور ونئے کٹیار جنہوں نے ’’ایک دھکا اور دو‘‘ نعرہ لگاکر کارسیوکوں کا حوصلہ بڑھایا تھا۔ گوشۂ گمنامی ان کا مقدر بن چکی ہے۔ کلیان سنگھ سیاسی منظر سے غائب ہوگئے جنہوں نے چیف منسٹر کی حیثیت سے مسجد کی شہادت میں مدد کی تھی۔ صورتحال یوں ہے کہ اب تو یوگی ادتیہ ناتھ رام مندر کے برانڈ ایمبسیڈر بن چکے ہیں۔ مندر کی تکمیل کے بعد بھی سابق قائدین کو مدعو کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔ اس مرحلہ پر ہم بابری مسجد مقدمہ کے 9 نومبر 2019 ء کے فیصلہ کو ضرور یاد کریں گے جو دلیلوں اور ثبوت کے بجائے آستھا کی بنیاد پر دیا گیا ۔ عدلیہ پر عوامی اعتماد کو متزلزل کرنے والے اس فیصلہ پر پڑے راز کا افشا اس وقت ہوا جب مرکز نے رام مندر کا تحفہ دینے والے سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی کو راجیہ سبھا کی نشست کی صورت میں جوابی تحفہ دیا ۔ گوگوئی کی قیادت میں سپریم کورٹ نے مقدمہ کی سماعت سے متعلق تمام مروجہ مراحل کی تکمیل ضرور کی لیکن فیصلہ کے بعد یہ طویل سماعت اور مباحث دراصل ضابطہ کی تکمیل ثابت ہوئے ۔ مرکزی حکومت اور بی جے پی قیادت کو فیصلہ کے بارے میں شائد پہلے ہی سے اطلاع تھی۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ 9 نومبر 2019 ء کو آیا لیکن ایک ماہ قبل 6 اکتوبر کو یوگی ادتیہ ناتھ نے اعلان کیا تھا کہ ’’بڑی خوشخبری آنے والی ہے‘‘۔
بابری مسجد کا فیصلہ جس دن آیا، اسی دن سے مقدمہ کے اصل فریق یعنی مسلمانوں کی بے حسی برقرار ہے بلکہ دن بہ دن بے حسی بڑھتی جارہی ہے۔ کسی کو اس بات کی فکر نہیں کہ خدائے واحد کی سجدہ گاہ کو بت خانہ میں تبدیل کیا جارہا ہے ۔ عدالت کے فیصلہ کے بعد سے عوام کو طرح طرح کے مسائل میں الجھاکر رکھا گیا ۔ کبھی شہریت ترمیمی قانون تو کبھی این پی آر کا آغاز ۔ الغرض ملک بھر میں مسلمانوں کی توجہ بابری مسجد سے ہٹاکر سی اے اے اور این پی آر پر مرکوز کردی گئی ۔ مسلمانوں نے سیاہ قوانین کے خلاف احتجاج منظم کیا اور دیگر طبقات اور سیکولر طاقتیں احتجاج میں شامل ہوگئیں۔ حکومت کیلئے سیاہ قوانین گلے کی ہڈی بن چکے تھے کہ اچانک کورونا وائرس نے نریندر مودی حکومت کو بچالیا ۔ وائرس کے سلسلہ میں پہلی مرتبہ فروری میں راہول گاندھی نے حکومت کو چوکنا کیا تھا لیکن اس وقت بی جے پی قائدین حتیٰ کہ مرکزی وزیر صحت نے راہول گاندھی کا مذاق اڑایا ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ کاش مودی حکومت فروری سے احتیاطی قدم اٹھاتی تو شائد آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔ اپوزیشن کو بے خاطر کرنے کی سزا ملک کو بھگتنی پڑ رہی ہے۔ دوسری طرف کشمیر میں تقریباً 8 ماہ بعد فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ کو قید سے رہا کردیا گیا جبکہ پی ڈی پی رہنما اور سابق چیف منسٹر محبوبہ مفتی ابھی بھی محروس ہیں۔ کشمیر کی سیاست میں کئی دہائیوں تک اہم رول ادا کرنے والے شیخ عبداللہ خاندان کے یہ دونوں سپوت قید سے رہا تو ہوگئے لیکن کشمیر کے خصوصی موقف 370 کے بارے میں دونوں کی زبانیں بند ہیں۔ یہ خاندان ویسے بھی فکسنگ کے لئے مشہور ہے۔ بی جے پی کے ساتھ سابق میں مفاہمت کرچکے ہیں اور این ڈی اے حکومت میں فاروق عبداللہ وزیر رہے۔ رہائی کے بعد سے آج تک دونوں نے کشمیریوں کے اصل مطالبہ 370 کی بحالی کو زبان پر نہیں لایا۔ حالانکہ شریفانہ معاہدہ کے تحت ہندوستان کشمیر کے خصوصی موقف کا پابند ہے۔ مسلم اکثریتی ریاست کے باوجود کشمیریوں نے ہندوستان میں رہنے کا فیصلہ کیا جس کی بنیاد پر 370 کے ذریعہ مختلف مراعات دی گئی۔ 4 اگست 2019 ء سے کشمیری عوام قید و بند کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کے جائز حقوق کو سلب کرلیا گیا ہے ۔ باپ بیٹے کی خاموشی سے شبہ ہورہا ہے کہ کسی خفیہ ساز باز اور مفاہمت کے نتیجہ میں ان کی رہائی عمل میں آئی ۔ ہوسکتا ہے کہ محبوبہ مفتی نے 370 پر سمجھوتہ سے انکار کردیا ، لہذا ان کی رہائی عمل میں نہیں آئی ۔ بی جے پی نے پی ڈی پی کے بعض قائدین کو توڑ کر نئی پارٹی تشکیل دی ہے۔ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے منحرف قائدین کی پارٹی کو کشمیر میں سیاست چلانے میں مدد دی جاسکتی ہے۔ گزشتہ 8 ماہ سے کشمیری عوام جن حالات سے گزر رہے تھے، کورونا وائرس کے نام پر آج دنیا بھر کو اسی طرح کی صورتحال کا سامنا ہے۔ یہ کشمیر کے مظلوم عوام کی بد دعا نہیں تو کیا ہے، جن کے حقوق چھین کر قید کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا ۔ آج باقی ہندوستان بھی عملاً کشمیر بن چکا ہے اور عوام اپنے گھروں میں محروس کردیئے گئے ۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ تم اگر اللہ کو پہچان لیتے تو اس کی سزاؤں کو بھی پہچان سکتے تھے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ فاروق اور عمر عبداللہ 370 کی بحالی تک رہائی قبول نہ کرتے لیکن ان کی خاموشی کئی سوالات پیدا کر رہی ہے۔ بقول کسی شاعر ؎
تمہارے سچ کی گواہی تمہیں ہی دینی ہے
خموشی ٹھیک نہیں ہے بیان دیتے رہو