تمہارے وعدوں کا قد بھی تمہارے جیسا ہے

   

مرکزی بجٹ …الیکشن سے قبل عوام کا فائدہ
رام مندر … فرقہ پرست ایجنڈہ پر واپسی

رشیدالدین
’’کاش ملک میں ہر سال الیکشن ہوتا‘‘۔ مرکز میں نریندر مودی حکومت کے بجٹ کی پیشکشی کے بعد عام آدمی کا تبصرہ کچھ یہی تھا۔ حکومت نے اپنی میعاد کے آخری بجٹ میں سماج کے تمام طبقات کیلئے جس طرح اعلانات اور وعدوں کی جھڑی لگادی ہے، اس سے محسوس ہوتا ہے کہ عوام کی بھلائی سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کی فکر ہے۔ عوام کو تو محض رعایتیں اور تر غیبات چاہئے ، چاہے وہ کسی پارٹی کی جانب سے کیوں نہ ہو۔ نریندر مودی حکومت نے انتخابات سے عین قبل جس طرح کا خوش کن بجٹ پیش کیا ، اس سے عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوچکے ہیں کہ کاش ملک میں الیکشن بار بار ہوتا اور ہر الیکشن سے عین قبل بجٹ کی پیشکشی کی تاریخ آتی تاکہ ہر بجٹ میں عوام کی قسمت کھل جاتی ۔ ہر پارٹی عام آدمی کی بھلائی کا دعویٰ کرتی ہے لیکن اس کا اظہار انتخابات سے عین قبل بجٹ کی پیشکشی کی صورت میں ہوتا ہے۔ جس طرح رائے دہی سے ایک دن قبل ووٹ حاصل کرنے کیلئے مختلف انداز میں ترغیبات دی جاتی ہے ، ٹھیک اسی طرح نریندر مودی حکومت نے بجٹ کی صورت میں باقاعدہ دستوری اور قانونی ترغیبات کا اعلان کیا ہے جس پر کسی کو اعتراض کی گنجائش بھی نہیں۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے نفاذ سے عام آدمی کو جو جھٹکہ لگا تھا، بجٹ میں مختلف رعایتوں کے ذریعہ سنبھالا دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ چونکہ یہ بجٹ الیکشن سے قبل پیش کیا گیا ، لہذا اسے الیکشن بجٹ بھی کہا جاسکتا ہے، تاہم یہ ہر برسر اقتدار پارٹی کی مجبوری بھی ہے۔ کوئی بھی پارٹی جو برسر اقتدار ہو، وہ الیکشن سے قبل اسی طرح کا بجٹ پیش کرتی۔ مودی حکومت نے سماج کے کسی بھی طبقہ کو رعایتوں کے ذریعہ خوش کئے بغیر نہیں چھوڑا ہے۔ غریب ، متوسط طبقات ، سرکاری ملازمین ، وظیفہ یاب ، کسان ، خواتین حتیٰ کہ لیبر طبقہ کیلئے مختلف اعلانات کئے گئے۔ گزشتہ چار برسوں میں مودی حکومت سے شہری علاقوں کے رائے دہندے ناراض تھے جس کا اظہار حال ہی میں تین ریاستوں کے نتائج سے ہوا۔ مودی نے بجٹ کے ذریعہ شہری رائے دہندوں کو منانے کی کوشش کی ہے جن میں خاص طور پر تاجر طبقہ شامل ہے۔

بجٹ کی تفصیلات میں گئے بغیر ہم اتنا ضرور کہیں گے کہ انتخابات میں کامیابی بھلے ہی کسی پارٹی کی کیوں نہ ہو، عوام کا تو فائدہ ہورہا ہے ۔ جو بھی نئی حکومت بنے گی اسے ان مراعات کو جاری رکھنا پڑے گا ۔ اسے عوام کی خوش قسمتی اور جمہوریت کی خوبی کہا جائے گا کہ سیاسی جماعتیں انتخابات سے قبل عوام کا دل جیتنے کیلئے خوش کن اسکیمات کے آغاز پر مجبور ہوتی ہے ۔ سیاسی جماعتوں میں ٹکراؤ جمہوریت کا حصہ ہے لیکن اس میں فائدہ تو عوام کا ہے۔ اب یہ عوام کی مرضی کہ وہ انتخابات میں فیصلہ کس پارٹی کے حق میں دیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوںکو چار برسوں تک عوام کی بھلائی اور ان کی مشکلات دور کرنے کا خیال کیوں نہیں آتا ۔ نریندر مودی نے وزیراعظم بننے سے قبل عوام سے جو وعدے کئے تھے، ان پر عمل آوری کے بجائے گزشتہ چار برسوں میں عوام کو مزید مشکلات میں مبتلا کیا گیا۔ طرح طرح سے بوجھ عائد کرتے ہوئے معاشی بحران کی صورتحال پیدا کی گئی ۔ ہر سال ایک کروڑ روزگار فراہم کرنے کا وعدہ کرنے والے نریندر مودی کے چار سال میں ملک میں بیروزگاری کی شرح میں بھیانک اضافہ ہوا جو سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 45 برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔ حکومت نے ہر سطح پر عوام کو جھٹکہ دیا لیکن چھتیس گڑھ ، راجستھان اور مدھیہ پردیش کے رائے دہندوں نے شکست کے ذریعہ ایسا جھٹکہ دیا کہ بی جے پی کے ہوش ٹھکانے آگئے ۔ نریندر مودی کی مقبولیت میں کمی اور عوامی ناراضگی کو دیکھتے ہوئے حکومت مقبول عام بجٹ پیش کرنے پر مجبور ہوگئی ۔ کانگریس پارٹی نے عوام سے جو وعدے کئے تھے، ان وعدوں کو بھی حکومت نے اپنے بجٹ میں دوسرے انداز سے شامل کرلیا ۔ تلنگانہ کی رعیتو بندھو اسکیم کی نقل کرتے ہوئے کسانوں کو سالانہ 6,000 روپئے امداد کا اعلان کیا گیا ہے۔ ٹیکس رعایت کو ڈھائی لاکھ سے بڑھاکر 5 لاکھ کرتے ہوئے تنخواہ یاب ملازمین کو بڑی راحت دی گئی جس کا طویل عرصہ سے مطالبہ کیا جارہا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت نے اعلیٰ طبقات کیلئے جو 10 فیصد تحفظات فراہم کئے ، اس کی اہلیت کیلئے سالانہ آمدنی کی حد 8 لاکھ مقرر کی گئی۔ جب تحفظات کے لئے سطح غربت کی حد 8 لاکھ مقرر کی گئی تو پھر تنحواہ یاب ملازمین کیلئے بھی ٹیکس سے استثنیٰ کی حد میں اضافہ ضروری تھا۔ گزشتہ پارلیمانی سیشن میں وزیر قانون روی شنکر پرساد نے کہا تھا کہ جس طرح ٹوئنٹی 20 میچ کے آخری اوور میں چھکے لگائے جاتے ہیں، اسی طرح مودی حکومت انتخابات سے قبل چھکے لگائے گی۔ مرکزی بجٹ میں مودی حکومت نے کچھ اسی طرح کی بیٹنگ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کانگریس زیر قیادت اپوزیشن انتخابات کی اننگز میں بولنگ کا کس طرح مظاہرہ کرتے ہوئے بی جے پی کو ڈھیر کرنے کی کوشش کرے گی۔

آخر کار یہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ لوک سبھا انتخابات سے قبل رام مندر پر سیاست۔ گزشتہ ساڑھے چار برسوں سے عوامی سطح پر ناکامی کے بعد بی جے پی نے دوبارہ فرقہ پرست ایجنڈہ کو اختیار کرلیا ہے ۔ رام مندر کی تعمیر کے مسئلہ پر ہندوؤں کے ووٹ متحد کرنے کیلئے ایک طرف سادھو سنتوں اور سنگھ پریوار کو میدان میں اتارا گیا تو دوسری طرف سپریم کورٹ میں نئی چال چلی گئی ۔ عوام کو اچھے دنوں کے خواب دکھاکر بہلانے والی نریندر مودی حکومت کو دوبارہ انتخابات میں کامیابی کیلئے شائد رام مندر کا سہارا لینا پڑ رہا ہے ۔ جب کبھی موقف کمزور ہوتا ہے ، بی جے پی فرقہ پرست ایجنڈہ کو آگے کردیتی ہے ۔ رام مندر مسئلہ پر پہلے تو سپریم کورٹ کو مقدمہ کی عاجلانہ سماعت کیلئے دھمکانے کی کوشش کی گئی۔ یہ حربہ جب ناکام ثابت ہوا تو مودی حکومت مندر کی تعمیر کیلئے قانون سازی کی تیاری کرنے لگی۔ دستور اور قانون کی رو سے جب یہ ممکن نظر نہیں آیا تو سپریم کورٹ میں نئی درخواست داخل کردی گئی جو منصوبہ بند حکمت عملی کا حصہ ہے۔ حکومت اور سنگھ پریوار کی ملی بھگت اس وقت آشکار ہوگئی جب ایودھیا کی غیر متنازعہ اراضی اس کے مالکین کو حوالہ کرنے کی عدالت سے اجازت طلب کی گئی ۔ دوسرے معنوں میں حکومت رام مندر کی تعمیر کے آغاز کیلئے عدالت کی منظوری چاہتی ہے۔ حکومت کی درخواست کے دوسرے ہی دن ہندو مذہبی رہنماؤں کی دھرم سنسد نے 21 فروری کو تعمیری کام کے آغاز کا اعلان کردیا۔ سیاسی اغراض کے لئے رام مندر کے مسئلہ کا استعمال بی جے پی کیلئے نئی بات نہیں لیکن ایسے وقت جبکہ اترپردیش میں یوگی ادتیہ ناتھ بی جے پی کے چیف منسٹر ہیں ، مندر کی تاریخ کے اعلان سے ملی بھگت صاف دکھائی دے رہی ہے ۔ 6 ڈسمبر 1992 ء کو بابری مسجد کی شہادت کے بعد حکومت نے قانون سازی کے ذریعہ اطراف کی 67 ایکر اراضی کو تحویل میں لے لیا تھا ۔ اس میں 42 ایکر رام جنم بھومی نیاس کی ملکیت ہے۔ مارچ 2003 ء کو سپریم کورٹ نے مکمل اراضی کے بارے میں جوں کا توں موقف برقرار رکھنے کی ہدایت دی تھی۔ مودی حکومت دراصل رام جنم بھومی نیاس کو 42 ایکر اراضی دلانا چاہتی ہے تاکہ مندر کی تعمیر کا آغاز ہوجائے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ بابری مسجد محض 0.313 ایکر پر محیط تھی ، لہذا اطراف کی اراضی حوالے کی جاسکتی ہے۔ حکومت پہلے مسجد کی اصلی حالت کو بحال کرے ، پھر اراضی پر اپنا دعویٰ پیش کرے کیونکہ اب مکمل اراضی تنازعہ کا شکار ہے اور معاملہ عدالت میں زیر دوران ہے۔ مرکز کا اقدام اور دھرم سنسد کا فیصلہ سیاسی چال اور عدلیہ کی توہین کے مترادف ہے۔ اگر مسلم تنظیمیں اس طرح کا کوئی اعلان کرتی تو کیا حکومت خاموش رہتی ؟ ویسے بھی مسلم مذہبی اور سیاسی قیادت بے حسی کا شکار ہے اور اس طرح کے اعلانات کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ قیادتوں کو اپنے مفادات عزیز ہیں۔ 21 فروری کے اعلان پر اگر عمل ہوتا ہے تو یہ ملک کی تاریخ ایک اور یوم سیاہ ہوگا ۔ جذباتی مسائل کے ذریعہ بی جے پی اکثریتی طبقہ کے جذبات کو بھڑکا کر ووٹ میں تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ امریکی انٹلیجنس نے انتخابات سے قبل ملک میں فسادات کا اندیشہ ظاہر کیا ہے ۔ موجودہ صورتحال میں بی جے پی کو عوامی جذبات مشتعل کرنے میں کامیابی ملتی دکھائی نہیں دیتی کیونکہ دونوں جانب عوام کو رام مندر مسئلہ سے کوئی دلچسپی نہیں۔ حالیہ دنوں مندر کے نام پر اٹھی تحریکات اور یاترائیں ناکام ہوگئیں۔ 1992 ء کے ہندو مسلم سماج اور آج کے حالات کافی بدل چکے ہیں۔ عوام کو مذہبی مسائل سے زیادہ روٹی کپڑا اور مکان کی فکر ہے۔ ویسے بھی ہندوستان کے خمیر میں محبت اور رواداری ہے۔ وقتی طور پر حالات بگڑے ضرور ہیں لیکن صدیوں سے ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا جذبہ برقرار ہے۔ مندر مسئلہ کو اگر فرقہ وارانہ کشیدگی کا ذریعہ بنایا گیا تو مودی حکومت کے بجٹ میں کئے گئے تمام اعلانات اور مراعات پر پانی پھر جائے گا ۔ بجٹ کے اعلانات اور وعدوں پر منظر بھوپالی کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
تمہارے وعدوں کا قد بھی تمہارے جیسا ہے
کبھی جو ناپ کے دیکھو تو کم نکلتا ہے