تمہارے کام اتنے تو نہیں ہیں

,

   

7 سندور آپریشن تھا یا جنگ … عوام کے سوالات کا جواب نہیں
7 پہلگام کو ایک ماہ مکمل … مودی سندور مارکٹنگ میں مصروف

رشیدالدین
آپریشن سندور کا سچ کیا ہے؟ سندور محض ایک آپریشن تھا یا جنگ؟ اگر آپریشن تھا تو اُس میں سیز فائر (جنگ بندی) نہیں ہوتی لیکن امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ جنگ بندی کا دعویٰ کیوں کررہے ہیں جسے ہندوستان اور پاکستان نے قبول بھی کرلیا ہے۔ پہلگام میں 22 اپریل کو دہشت گرد حملہ کے بعد 6 مئی کی رات دیر گئے ہندوستانی افواج نے آپریشن سندور کے ذریعہ پاکستان میں دہشت گرد ٹھکانوں کو تباہ کردیا تھا۔ اِس کے بعد 8، 9 اور 10 مئی تک دونوں جانب سے ایک دوسرے پر حملے کئے گئے اور پھر اچانک ٹرمپ نے میچ ریفری کی طرح سیٹی بجاکر کھیل کے اختتام کا اعلان کردیا۔ جنگ بندی کے بعد نریندر مودی نے آپریشن سندور اور فوج کے نام پر جس انداز میں سیاست شروع کی ہے اُس نے کئی سوالات پیدا کردیئے ہیں۔ یہ سوالات ایسے ہیں کہ جن کا جواب حکومت کے پاس نہیں۔ نریندر مودی کے پاس 56 انچ کے سینے کے باوجود ہمت نہیں ہے کہ ٹرمپ کو جھوٹا ثابت کریں۔ نریندر مودی عوامی ریالیوں میں آپریشن سندور کے ذریعہ پاکستان کو سبق سکھانے اور دھول چٹانے کا دعویٰ کررہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سوالات میں اضافہ ہورہا ہے اور مودی حکومت جواب دینے کے بجائے اپوزیشن اور سیول سوسائٹی کی آواز کچلنے کی کوشش کررہی ہے۔ فوج کے جانباز سپاہیوں نے دشمن کے دانت کھٹے کرنے کا جو کارنامہ انجام دیا ہے اُس پر سیاست کرنے کا کاپی رائٹ جیسے صرف ایک شخص کے پاس ہے اور وہ ہیں نریندر مودی۔ اپوزیشن فوج کی کامیابی کی ستائش تو کرسکتا ہے لیکن ناکام خارجہ پالیسی کے بارے میں سوال پوچھا نہیں جاسکتا۔ وزیر خارجہ جئے شنکر سے نیدرلینڈ کے دورہ کے موقع پر سوال کیا گیا کہ پہلگام حملہ کے دہشت گرد کہاں ہیں؟ اُن کا پتہ چلانے میں کامیابی کیوں نہیں ملی؟ آخر وہ حملہ آور کہاں چلے گئے؟ کیا وہ پاکستان واپس ہوچکے ہیں؟ اِس کے جواب میں جئے شنکر نے صرف اتنا کہاکہ حملہ آوروں کی شناخت کرلی گئی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر شناخت کرلی گئی تو پھر اُن کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟ ہندوستان میں تو سوالات کے جواب دینے سے حکومت قاصر ہے لیکن دنیا بھر میں پاکستان کی ’’پول کھولنے‘‘ کیلئے 57 ارکان پارلیمنٹ پر مشتمل 7 سرکاری وفود کو 33 ممالک روانہ کیا جارہا ہے۔ کسی نے ارکان پارلیمنٹ کے بیرونی دوروں کو ایک تفریح اور ٹورازم سے تعبیر کیا ہے۔ عوام کے ذہنوں میں اُٹھنے والے سوالات کا جواب دینے کے بجائے ’’ٹورس اینڈ ٹراویلس‘‘ کمپنی کے رول میں مرکزی حکومت نے بیرونی دوروں کا اہتمام کیا۔ بیرونی ممالک جانے والے وفود کے ہاتھ اور دامن دونوں خالی ہیں۔ اُنھیں پہلگام حملہ کے ذمہ داروں کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں دیا گیا تاکہ دیگر ممالک کو پیش کیا جاسکے۔ ارکان پارلیمنٹ صرف آپریشن سندور کی کامیابیوں کا ذکر کریں گے۔ پارلیمنٹ کا اجلاس طلب نہیں کیا گیا اور نہ ہی وزیراعظم نے کل جماعتی اجلاس طلب کرتے ہوئے آپریشن سندور کا سچ بیان کیا۔ مودی کو بتانا چاہئے کہ ٹرمپ کے وعدوں میں کتنی سچائی ہے۔ کشمیر پر بات چیت نہیں ہوگی اور کسی کی ثالثی قبول نہیں تو پھر ٹرمپ کو راست طور پر جواب دینے سے بچ کیوں رہے ہیں۔ پارلیمانی وفود کی روانگی دنیا کے آگے امریکی دباؤ سے باہر نکلنے کی کوشش تو نہیں؟ مودی نے بیکانیر میں ریالی سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ٹریڈ اور ٹاک پاکستان سے نہیں ہوگا بلکہ صرف پاک مقبوضہ کشمیر پر بات ہوگی۔ دنیا کی کوئی طاقت ہمیں جھکا نہیں سکتی۔ نریندر مودی جس وقت ریالی سے خطاب کررہے تھے اُدھر واشنگٹن میں ٹرمپ نے دونوں ممالک میں ٹریڈ ڈیل کا دعویٰ کیا۔ ٹرمپ نے 8 مرتبہ جنگ بندی اور کشمیر کے مسئلہ پر ثالثی کی بات کو دوہرایا ہے۔ جب کسی کے آگے نہیں جھکیں گے تو پھر سیز فائر کے ٹرمپ کے دباؤ کو کیوں قبول کیا گیا۔ وزیراعظم عوامی ریالیوں میں فلمی ڈائیلاگس کو دوہراتے ہوئے آپریشن سندور کا سہرا اپنے سر لینے کی کوشش کررہے ہیں۔ مودی بار بار آپریشن سندور کی کامیابی اور فوج کے کارناموں کا حوالہ دے رہے ہیں۔ اگر یہ صرف آپریشن تھا تو وہ 7 مئی کی صبح ختم ہوگیا پھر 8، 9 اور 10 مئی کو جو کچھ ہوا وہ کیا تھا؟ الغرض نریندر مودی اور بی جے پی نے فوجی کارروائی پر سیاست شروع کردی ہے تاکہ بہار اور دوسری ریاستوں کے اسمبلی چناؤ میں فائدہ ہو۔ فوج کی بہادری اور کارناموں پر بی جے پی اپنا پرچم لہرانے کی کوشش کررہی ہے۔ فوج پیچھے اور سیاست آگے ہوچکی ہے۔ اِس مہم کی کمان نریندر مودی نے سنبھال لی ہے۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کے وہ عزائم اور منصوبے کہاں گئے جس میں اُنھوں نے پاک مقبوضہ کشمیر کو حاصل کرنے کی بات کہی تھی۔ آپریشن سندور اِس کا بہترین موقع تھا لیکن محض 3 دن میں ہی سیز فائر کے دباؤ کو قبول کرتے ہوئے عوام کو مایوس کردیا۔ جنگ تو ختم ہوگئی اور سیز فائر نافذ ہے لیکن نریندر مودی اپنی مخصوص ڈائیلاگ ڈیلیوری کے ذریعہ الفاظ کے گولے اور میزائیلس پاکستان کے خلاف داغ رہے ہیں۔
پہلگام دہشت گرد حملہ کا 22 مئی کو ایک ماہ مکمل ہوچکا ہے لیکن آج تک اُن 4 دہشت گردوں کا پتہ چلانے اور اُنھیں سزا دینے میں کامیابی نہیں ملی۔ نریندر مودی نے آپریشن سندور پر اپنی مارکٹنگ جاری رکھتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ میری رگوں میں خون نہیں بلکہ گرم سندور دوڑ رہا ہے۔ یہ ویہی نریندر مودی ہیں جنھوں نے 2014ء میں جاپان کے ٹوکیو میں کہا تھا کہ میں گجراتی ہوں اور میرے خون میں پیسہ دوڑتا ہے۔ پیسے کے بعد رگوں میں سندور کیسے اور کب آگیا۔ فلمی ڈائیلاگ کے بجائے نریندر مودی عوام کے سوالات کے جواب دیں۔ راہول گاندھی نے سوال کیاکہ نریندر مودی آپ کا خون صرف کیمروں کے سامنے ہی گرم کیوں ہوتا ہے؟ نریندر مودی کا خون اُس وقت گرم نہیں ہوا جب واشنگٹن میں ٹرمپ ہندوستان کی توہین کررہے تھے۔ ساتھ میں بٹھاکر ٹرمپ نے مودی کو ’’ٹیرف کنگ‘‘ کہا تھا۔ مودی کا خون اُس وقت گرم نہیں ہوا جب مدھیہ پردیش کے وزیر جئے شاہ نے کرنل صوفیہ قریشی کو دہشت گردوں کی بہن قرار دیا تھا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ سیاست چیز ہی ایسی ہے کہ انسان اپنا کچھ بھی بدل سکتا ہے اور نریندر مودی کے لئے خون تبدیل کرنا کوئی بڑی بات نہیں۔ پہلگام حملہ کے ایک ماہ کے دوران کئی اہم تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور عوام کے ذہنوں میں روزانہ نت نئے سوالات اُبھر رہے ہیں۔ پہلگام سانحہ کے بعد کشمیر میں سیاحت مکمل طور پر ختم ہوگئی۔ آپریشن سندور کے دوران پونچھ میں شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں لیکن آج تک حکومت نے متاثرہ خاندانوں کے لئے کوئی ٹھوس امدادی پیاکیج کا اعلان نہیں کیا۔ ملک میں وزیراعظم نریندر مودی کے کئی پروگرام ہوئے اور آئندہ بھی جاری رہیں گے۔ عام جلسوں میں مودی کے روایتی بھاشن جاری ہیں لیکن اُنھوں نے آج تک پہلگام اور پونچھ کے مہلوکین کے پسماندگان سے ملاقات نہیں کی۔ دہشت گردوں کو پکڑنے میں ناکامی کیا حکومت کی ہے یا انٹلی جنس کی؟ عوام سوال کررہے ہیں کہ پہلگام میں سکیورٹی ہٹانے کا فیصلہ کس نے کیا تھا؟ حکومت نے آج تک اُن عناصر کی نشاندہی نہیں کی جن کی غیر ذمہ داری کے نتیجہ میں دہشت گردوں کو پہلگام پہونچنے کا موقع ملا۔ حیرت تو اِس بات پر ہے کہ گودی میڈیا نے بھی پہلگام کے مہلوکین کو بھلادیا ہے۔ آپریشن سندور کے چہرے کے طور پر وزیراعظم نریندر مودی کو پیش کیا جارہا ہے۔ ملک بھر میں مودی کے فوجی لباس میں پوسٹرس اور ہورڈنگس لگائے گئے۔ ریلوے ٹکٹ پر آپریشن سندور اور نریندر مودی کی فوٹو شامل کی گئی۔ آپریشن سندور کی نگرانی کس نے کی، اِس کا آج تک کوئی جواب نہیں ملا کیوں کہ حکومت کی سطح پر مختلف بیانات دیئے جارہے ہیں۔ ایسے وقت جبکہ سارا ملک فوج کی کامیابی کی ستائش کررہا ہے، وزیر خارجہ جئے شنکر نے یہ کہتے ہوئے ہر کسی کو حیرت میں ڈال دیا کہ آپریشن سندور سے قبل پاکستان کو اطلاع دے دی گئی تھی۔ ہندوستان نے اپنے مسیج میں کہا تھا کہ فوج رہائشی علاقوں اور فوجی ٹھکانوں پر حملہ نہیں کرے گی بلکہ دہشت گرد ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ سیز فائر کے 9 دن بعد وزیر خارجہ کا یہ بیان فوجی کارروائی پر سوال کھڑے کررہا ہے۔ کسی بھی فوجی کارروائی کی تاریخ میں شاید آج تک ایسا کبھی ہوا ہو کہ دشمن کو حملہ کی پیشگی اطلاع دی جائے۔ آخر کس کی اجازت سے پاکستان کو اطلاع دی گئی اور اطلاع دینے کا مقصد کیا تھا؟ ظاہر ہے کہ جب پاکستان کو حملہ کی پیشگی اطلاع دے دی گئی تو پھر اِس بات کی کیا ضمانت ہے کہ دہشت گرد اپنے ٹھکانوں پر موجود رہیں گے۔ بین الاقوامی میڈیا میں تباہ شدہ طیاروں کی تصاویر کے ساتھ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ یہ ہندوستان کے ہیں لیکن اِس بارے میں فوج اور حکومت نے کوئی وضاحت نہیں کی۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ آپریشن سندور کے آغاز سے قبل پاکستان کو اطلاع دینا ملک سے غداری کے مترادف ہے۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران وزیراعظم نے اپوزیشن کا سامنا نہیں کیا اور صرف عوامی جلسوں میں آپریشن سندور کا کریڈٹ اپنے سر باندھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ملک میں مسلمانوں سے نفرت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپریشن سندور کی قیادت کرنے والی کرنل صوفیہ قریشی کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ مدھیہ پردیش کے وزیر وجئے شاہ کے خلاف آج تک بی جے پی نے کوئی کارروائی نہیں کی جبکہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ نے وجئے شاہ کی سرزنش کی۔ برخلاف اُس کے ہریانہ میں پروفیسر علی خان کو بغیر کسی جرم کے جیل بھیج دیا گیا۔ شاید اُن کا قصور صرف یہی ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور وجئے شاہ کو راحت اِسی لئے ہے کہ وہ بی جے پی کے وزیر ہیں۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران مسلمانوں کے خلاف تقریباً 200 معاملات منظر عام پر آئے ہیں جن میں تقریباً 6 مسلمانوں کو ماب لنچنگ میں ہلاک کردیا گیا۔ اِس کے علاوہ حملوں کے دیگر واقعات اور نفرت انگیز تقاریر کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔ بیرونی ممالک کے سامنے پاکستان کا پول کھولنے کے لئے جانے والے ارکان پارلیمنٹ سے جب صوفیہ قریشی، پروفیسر خان اور نفرت کے واقعات کے بارے میں پوچھا جائے گا تو وہ کیا جواب دیں گے۔ نیہا سنگھ راٹھور کے خلاف مقدمات اور ایک یو ٹیوب چیانل کو بند کرنے جیسے اقدامات بھی حکومت کی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان ہیں۔ نعیم اختر برہان پوری کا یہ شعر ملک کی صورتحال پر صادق آتا ہے ؎
تمہارے کام اتنے تو نہیں ہیں
تمہارا نام جتنا چل رہا ہے