’’تم بالکل ہم جیسے نکلے ‘‘ہندوستان ، پاکستان کی راہ پر

   

رام پنیانی
پڑوسی ملک ’پاکستان‘ فی الوقت ایک بہت بڑے معاشی بحران کی گرفت میں ہے۔ اس ملک میں آٹے کی قیمت 150 پاکستانی روپئے فی کلوگرام، ایک تیار روٹی کی قیمت 30 روپئے ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں عوام کی یومیہ اوسط آمدنی 500 روپئے ہے اور ہر گھر میں یومیہ اوسطاً 10 روٹیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسری طرف امریکی ڈالر کے مقابل پاکستانی روپئے کی قدر میں مسلسل کمی آرہی ہے۔ اب 941 ، 270 پاکستانی روپئے ایک ڈالر کے مساوی ہوگئے ہیں۔ پاکستان کی ابتر معاشی حالت کے بارے میں مشی گن اسکول آف پبلک پالیسی کے پروفیسر جان سیار سیاری کا کہنا ہے کہ پاکستان کو سنگین اور شدید مالی بحران کا سامنا ہے اور واضح طور پر اسے مالی مدد (معاشی امداد) کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے بیرونی زر مبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک نچلی سطح پر آگئے ہیں اور اس کے پاس چند ہفتوں کی درآمدات کیلئے ادائیگی کی رقم باقی رہ گئی ہے، مہنگائی پچھلے پانچ دہوں میں سب سے زیادہ بلندی پر پہنچ گئی ہے۔ معاشی نمو رُک سا گیا ہے۔ سنٹرل بینک نے کمزور کرنسی کے مسئلہ سے نمٹنے کیلئے سود کی شرحوں میں اضافہ کردیا ہے۔
اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ موجودہ ابتر مالی حالت کیلئے جزوی طور پر تباہ کن سیلاب بھی ذمہ دار ہے اور دوسری وجہ پاکستان میں فوج کی بالادستی اور جمہوری اداروں کی کمزوری بھی ہے۔ سیاست میں مذہبی جماعتوں کی مسلسل مداخلت اور امریکی اثر بھی اس کیلئے ذمہ دار ہے۔ پاکستان کی ترقی میں رکاوٹ کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ فوج اور مذہبی انتہا پسندی بھی اس کیلئے ذمہ دار ہے۔ پاکستان کی ترقی و خوشحالی میں یہ دو عنصر کسی بھی طرح اپنی ذمہ داری سے نہیں بچ سکتے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے ہر معاملے میں امریکہ مداخلت کرتا ہے ۔ اس کی ہر پالیسی پر امریکی اثرانداز ہوتا ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ آزادی کے وقت پاکستان کے پہلے گورنر جنرل محمد علی جناح نے 11 اگست کو قانون ساز اسمبلی میں کئے گئے اپنے تاریخی خطاب میں ایک سکیولر ریاست کی بہترین تعریف کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا ’’اگر آپ اپنے ماضی کو تبدیل کرکے اسے فراموش کرکے پورے جذبہ کے ساتھ مل جل کر بلالحاظ مذہب و ملت رنگ و نسل، ذات پات متحد ہوکر کام کرتے ہیں تو کوئی بھی آپ کو ترقی و خوشحالی سے نہیں روک سکتا۔ ایک خوشحال اور ترقی یافتہ پاکستان کیلئے آپ کو یہ نہیں سوچنا ہے کہ آپ کس کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ماضی میں آپ کے تعلقات کیسے رہے ہیں۔ اس کا رنگ کیا ہے، وہ کس ذات سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر آپ یہ طئے کرلیں کہ ہم سب اس ملک کے شہری ہیں، تمام کو مساویانہ حقوق حاصل ہیں، یکساں مراعات کے حقدار ہیں اور اس ملک کے تئیں ہمارے بھی کچھ فرائض ہیں تو سمجھ لیں کہ اس ملک اور آپ کی ترقی یقینی ہے۔محمد علی جناح کے یہ اصول دیرپا ثابت نہ ہوئے اور ان کے اطراف موجود بنیاد پرست عناصر نے ان کی موت کے بعد سارے ملک (پاکستان) کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ ہندوؤں، عیسائیوں اور دوسری اقلیتوں پر مظالم ڈھائے گئے۔ ان سے تعصب و جانبداری برتی گئی، ناانصافی کی گئی، انہیں قانونی کارروائیوں کے ذریعہ نشانہ بنایا گیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سیاست میں مذہب داخل ہوگیا، مذہبی انتہا پسندی اور جنونیت کو فروغ حاصل ہونے لگا، زراعت اور صنعت کی بنیادی سہولتوں پر کوئی توجہ مرکوز نہیں کی گئی۔ اس طرح صحت و تعلیم کے شعبوں کو بہت کم ترجیح دی گئی اور اس پر طرفہ تماشہ پر ہوا کہ سیاست میں بنیاد پرستوں کا غلبہ ہونے لگا۔ فوجی مداخلت بھی بڑھتی گئی۔ فوج نے تو ہر معاملے میں خود کو سب سے اہم قرار دیا۔ نتیجہ میں سیاسی جماعتیں سیاست داں اور سیول حکومتیں ان کے سامنے بے بس و لاچار دکھائی دینے لگی، فوج اور انتہا پسند جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کی مختلف ترجیحات نے بھی پاکستان کو موجودہ حالات پر لانے میں تباہ کن کردار ادا کیا۔ اگر دیکھا جائے تو آج پاکستان میں جو معاشی و سیاسی عدم استحکام پایا جاتا ہے، اس کیلئے فوج کی مداخلت اور مذہبی انتہا پسندوں کا عروج دو اہم پہلو ذمہ دار ہیں۔ ان کے باعث ہی ریاست معاشی چیلنج سے نمٹنے میں ناکام ہے۔ ہمارے پاس اس طرح کے دو کیسیس ہیں۔ اگرچہ دونوں کیسیس میں پوری طرح مماثلت نہیں پائی جاتی، پھر بھی ان کے درمیان کافی چیزیں ملتی چلتی ہیں۔ مثال کے طور پر سری لنکا بھی ہمارا ایک پڑوسی ملک ہے اور وہاں بھی نسلی اور سنہالا۔بڈھسٹ سیاست چھائی ہوئی ہے اور ان کا پہلا نشانہ ہندو تامل باشندے رہے پھر ان فورسیس نے مسلمانوں اور عیسائیوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ سری لنکا میں بھی فوج کی اجارہ داری پائی جاتی ہے اور اس نے کئی بڑے اہم فیصلے بھی کئے جن میں راجہ پکسے ایرپورٹ پر ملک کی دولت لٹانا یہ طیران گاہ ہم بن تو ٹا طیران گاہ کے قریب تعمیر کیا گیا۔اسی طرح کھاد یا فرٹیلائزر کی درآمد کو روکنا یہ ایسے فیصلے تھے جو 8 ماہ قبل سری لنکا میں ایک بہت بڑی معاشی تباہی کا باعث بنے۔
ہندوستانی روپیہ بھی ڈالر کے مقابلے کمزور ہوتا جارہا ہے اور ڈالر کے مقابل ہمارے روپیہ کی قدر 83 روپئے ہوگئی ہے۔ ملک میں بیروزگاری کی شرح خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ قومی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) بھی گراوٹ کا شکار ہے۔ اکسفام رپورٹ میں ہندوستانی دولت مندوں اور غریبوں کے درمیان پائی جانے والی خلیج کو واضح کیا گیا ہے۔ بہرحال ہمارے ملک میں بھی مسلمانوں اور عیسائیوں کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ان سے تعصب و جانبداری برتی جارہی ہے۔ اس ضمن میں سابق پولیس عہدیداروں جولیو ریپرو کا یہ بیان کافی ہے ’’آج میں اپنی 86 سال کی عمر میں خود کو دھمکایا ہوا ، ناقابل قبول اور اپنے ہی ملک میں ایک اجنبی محسوس کررہا ہوں اور ہندو راشٹرا کے حامیوں کی نظروں میں کم از کم میں ہندوستانی نہیں رہا اور وہی لوگ آج میرے خلاف کھڑے ہیں جو ماضی میں اپنے تحفظ کیلئے مجھ پر بھروسہ کرتے تھے۔ ایک بات ضرور ہے کہ سری لنکا اور پاکستان کی بہ نسبت ہندوستان نے سکیولر اور روشن خیال قائدین کی بدولت سکیولرازم کی مضبوط بنیادوں پر اپنے سفر کا آغاز کیا۔ صنعتوں، آبپاشی، کھاد ، صحت عامہ کی سہولتوں (پرائمری ہیلتھ سنٹرس) اور تعلیم پر توجہ مرکوز کی ساتھ ہی اعلیٰ تعلیم کے باوقار ادارے آئی آئی ٹیز، آئی آئی ایمس، تحقیقی ادارے قائم کئے جن میں BARC (1954ء) ، DRDO (1958ء)اور INCOSPAR (بعد میں اسے ISRO کا نام دیا گیا) (1962ء) وغیرہ شامل ہیں لیکن 80 کے دہے سے فرقہ واریت کا عفریت اپنا سَر اُبھارنے لگا اور اب فرقہ پرستوں کی اجارہ داری اور بالادستی قائم ہوگئی ۔ حکومت نے ’’اچھے دن آنے والے ہیں) اور ’’سب کا ساتھ ، سب کا وکاس‘‘ جیسا نعرہ لگایا، اس کے باوجود تمام شعبے روبہ زوال ہیں۔ ہندوستان نے ایک ترقی یافتہ ریاست کی حیثیت سے خود کو ابھارا اور پاکستان جلد ہی تخریبی سیاست کا شکار ہوگیا، کئی پاکستانی ہندوستان کو رول ماڈل کے طور پر دیکھا کرتے تھے لیکن اب تو ایسا لگ رہا ہے کہ پچھلے 30 برسوں سے ہندوستان بھی پاکستان کی راہ پر گامزن ہوچکا ہے جیسا کہ بابری مسجد کی شہادت کے فوراً بعد پاکستان کی شاعرہ فہمیدہ ریاض مرحومہ نے سچ کہا تھا :
تم بالکل ہم جیسے نکلے