7 بہار کی جوں کی توں سرکار… بی جے پی کی ہار، نتیش کمار کی جیت
7 مغربی بنگال اگلا نشانہ … کانگریس میں پھوٹ کی دھمکی
رشیدالدین
نتیش کمار نے 10 ویں مرتبہ بہار کے چیف منسٹر کے عہدہ کا حلف لے لیا۔ 20 برسوں میں 10 ویں مرتبہ چیف منسٹر کے عہدہ کا حلف کسی ریکارڈ سے کم نہیں ہے ۔ بہار میں این ڈی اے کی جیت ہوئی لیکن بی جے پی ہار گئی۔ نتائج میں جے ڈی یو اور بی جے پی کی نشستوں میں اضافہ ضرور ہوا اور ووٹ فیصد میں تاریخی اضافہ کے ساتھ دونوں پارٹیوں کو دوبارہ اقتدار حاصل ہوا۔ باوجود اس کے بی جے پی کا چیف منسٹر کی کرسی پر قبضہ کا خواب پورا نہیں ہوا۔ جے ڈی یو سے زائد نشستوں کے باوجود نتیش کمار سے بی جے پی کو سمجھوتہ کرنا پڑا۔ انتخابی مہم کے دوران بی جے پی نے ایک مرتبہ بھی نہیں کہا تھا کہ نتیش کمار آئندہ چیف منسٹر ہوں گے ۔ بی جے پی قائدین نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ نو منتخب ارکان اسمبلی چیف منسٹر کا انتخاب کریں گے ۔ نتائج کے بعد بھی قیاس آرائیاں کی گئیں کہ شائد بی جے پی نتیش کمار کے بجائے اپنے چیف منسٹر کو حلف دلائے گی لیکن سوال یہ تھا کہ پھر نتیش کمار کا کیا ہوگا جن کی کارکردگی نے این ڈی اے کو کامیابی دلائی ہے۔ بی جے پی نے لاکھ کوشش کی لیکن نتیش کمار اور ان کے ساتھی خاموش رہے۔ خاموشی کے ساتھ ہی نتیش کمار نے کچھ ایسی چال چلی کہ بی جے پی ان کے آگے سرینڈر ہونے پر مجبور ہوگئی۔ اس طرح بہار میں نتیش کمار کی جیت اور بی جے پی کی ہار ہوئی ہے۔ نتائج تو تبدیل ہوئے لیکن بہار میں ’’جوں کا توں سرکار‘‘ بن گئی جسے انگریزی میں Status quo کہا جاتا ہے ۔ بہار میں حالات بدل گئے لیکن حکومت میں کوئی خاص تبدیلی نہیں دیکھی گئی۔ پٹنہ کے گاندھی میدان میں ہزاروں حامیوں کے درمیان نتیش کمار کے ساتھ 26 وزراء نے حلف لیا لیکن دونوں ڈپٹی چیف منسٹرس پرانے ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی ، بی جے پی کے چانکیہ امیت شاہ کے علاوہ 11 ریاستوں کے چیف منسٹرس اور مرکزی وزراء کے جھرمٹ کے باوجود جوش و خروش کی کمی تھی ۔ مودی ۔ امیت شاہ نے عوام سے کئی وعدے بھی کئے لیکن عوام وعدوں پر بھروسہ کیلئے تیار نہیں تھے۔ مودی نے جھک کر عوام کا شکریہ ادا کیا لیکن حقیقت میں انہیں الیکشن کمیشن کا شکریہ ادا کرنا چاہئے جس نے SIR کے ذریعہ یہ کامیابی دلائی ۔ ویسے بھی چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار کے مودی کے آگے سرنگوں ہونے کی تصاویر وائرل ہوچکی ہے ۔ نتیش کمار نے 10 ویں مرتبہ چیف منسٹر کا حلف لیتے ہوئے ثابت کردیا کہ وہ سیاسی چال بازیوں میں بی جے پی کے استاد ہیں۔ انہوں نے خاموشی کے ساتھ بی جے پی کی ہر سازش کو ناکام کردیا۔ نتیش کمار بھلے ہی عمر میں مودی سے چار ماہ چھوٹے ہیں لیکن سیاسی تجربہ کے معاملہ میں مودی سے آگے ہیں۔ نتیش کمار دراصل بی جے پی کی مجبوری بن چکے ہیں اور نہ چاہتے ہوئے بھی بی جے پی کو چیف منسٹر کا تاج ان کے سر پر سجانا پڑا۔ نتیش کمار بنیادی طور پر سوشلسٹ تحریک اور سماج وادی نظریہ کے حامل ہیں اور انہوں نے بہار میں بی جے پی کو فرقہ پرستی کا زہر پھیلانے کی اجازت نہیں دی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے وزارت داخلہ کا قلمدان بی جے پی کو نہیں دیا۔ حلف برداری تقریب میں خاندانی سیاست کی جھلک بھرپور دکھائی دی۔ نریندر مودی نے کانگریس کو نشانہ بنانے کیلئے ہمیشہ خاندانی سیاست اور وراثت کی مخالفت کی ، حتیٰ کہ نتائج کے اعلان کے بعد بھی انہوں نے کانگریس کو سیاسی وراثت کے مسئلہ پر نشانہ بنایا۔ بہار کے 26 وزراء میں 8 وزراء سینئر قائدین کے سیاسی جانشین ہیں۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اوپیندر کشواہا کے فرزند دیپک شرما کو کابینہ میں شامل کیا گیا جبکہ وہ اسمبلی اور کونسل کے رکن بھی نہیں ہیں۔ کشواہا راجیہ سبھا کے رکن ہیں اور بیوی اسمبلی کی رکن ہیں ۔ بہار میں نریندر مودی کے روبرو خاندانی سیاست کا بھرپور مظاہرہ دیکھنے کو ملا ۔ نتیش کمار 20 سال سے چیف منسٹر ضرور ہیں لیکن آج بھی بہار کی صورتحال 2005 کی طرح برقرار ہے۔ پسماندگی اور غربت کے نتیجہ میں لاکھوں بہاری دوسری ریاستوں میں روٹی روزی کیلئے نقل مقام پر مجبور ہیں۔ اوسطاً 6000 روپئے ماہانہ آمدنی والی اس ریاست میں بی جے پی نے ایک کروڑ روزگار فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے ۔ نتائج کے اعلان کے بعد لاکھوں بہاری ورکرس اپنی اپنی ریاستوں کو روزگار کے لئے واپس ہوگئے اور انہیں امید ہے کہ بہار کی حکومت ایک کروڑ روزگار فراہم کرتے ہوئے نقل مقام کو روک دے گی۔ ایک ماہ کی مزدوری میں 6 ہزار مل رہے ہیں اور ایک ووٹ کے بدلے 10,000 روپئے مل جائے تو کیا برا ہے ۔ سیاسی تجزیہ نگاروں نے ووٹ خریدی الیکشن قرار دیا ہے۔ راہول گاندھی نے SIR کے نام پر الیکشن کمیشن کی مدد سے ووٹ چوری کا الزام عائد کیا لیکن بی جے پی ۔ جے ڈی یو نے ثابت کردیا کہ جب ووٹ خریدے جاسکتے ہیں تو پھر ووٹ چوری کی کیا ضرورت ؟ انتخابی ضابطہ اخلاق کے نفاذ کے باوجود مکھیہ منتری روزگار یوجنا کے تحت 1.40 کروڑ خواتین کے بینک اکاؤنٹس میں فی کس 10 ,000 روپئے منتقل کئے گئے اور الیکشن کمیشن نے آنکھیں بند کرلیں۔ فہرست رائے دہندگان میں دھاندلیوں اور حقیقی رائے دہندوں کے نام خارج کرنے کے ثبوت پیش کرنے کے باوجود وہی کچھ ہوا جو الیکشن کمیشن اور بی جے پی چاہتے تھے ۔ بہار کے چناؤ میں دھاندلیوں کے خلاف نمائندگی کے لئے اپوزیشن تیار نہیں ہے کیونکہ شکایت کریں تو آخر کس سے ؟ جب شکایت کی سماعت کرنے والا خود قصوروار ہو تو انصاف رسانی کی توقع کس سے کی جائے گی۔ الیکشن کمیشن ہو کہ سپریم کورٹ دونوں نے عوام کو مایوس کردیا ہے ۔ اپوزیشن جانتا ہے کہ سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے تو فیصلہ کیا آئے گا۔ آئے گا بھی یا صرف تاریخ پہ تاریخ دی جائے گی؟ بہار میں SIR کے خلاف سپریم کورٹ م یں داخل کی گئی درخواستوں کا آج تک فیصلہ نہیں آیا اور وہاں الیکشن مکمل ہوگیا۔ ا پو زیشن کو معلوم ہے کہ الیکشن کمیشن سے رجوع ہوں تو کوئی جواب نہیں آ ئے گی۔ 2024 لوک سبھا اور ہریانہ چناؤ کے بارے میں دھاندلیوں کے سوالات کا آج تک الیکشن کمیشن نے جواب نہیں دیا۔ بہار کے بار ے میں الیکشن کمیشن سے جواب کی امید کرنا فضول ہے۔ اب رہی بات میڈیا کی تو وہاں بیٹھی ہوئی پاپا کی پریاں اور کالو اور گلوؤں کو مودی کا نام جپنے سے فرصت نہیں ۔ اگر اپوزیشن ان سے شکایت کریں تو کیمرہ کے سامنے بٹھاکر مخالفین مودی کی بے عزتی کی جاتی ہے ۔ مودی حکومت میں یہ واضح ہوگیا کہ جیت کیلئے دستوری اداروں پر کنٹرول حاصل کرلیا جائے ۔ مودی حکومت نے جتنے بھی متنازعہ فیصلے کئے ، سپریم کورٹ نے ان کے حق میں فیصلہ سنایا یا پھر تاریخ پہ تاریخ دی جا رہی ہے ۔ کشمیر میں دفعہ 370 کے نفاذ اور ریاست کا درجہ ختم کرنے کا معاملہ ابھی بھی سپریم کورٹ میں ز یر التواء ہے ۔ سپریم کورٹ پر مرکز کا کنٹرول کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ عمر خالد ، شرجیل امام اور دوسرے طلبہ قائدین کو ٹرائل کے بغیر پانچ سال سے جیل میں رکھا گیا لیکن سپریم کورٹ ضمانت پر فیصلہ کے بجائے ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے ، شائد وہ مودی حکومت کو ناراض کرنا نہیں چاہتے۔
نریندر مودی کا اگلا نشانہ مغربی بنگال ہے جہاں SIR کا کام جاری ہے اور آئندہ سال مارچ اور اپریل میں اسمبلی انتخابات ہوں گے۔ فہرست رائے دہندگان پر خصوصی نظرثانی کے ذریعہ بی جے پی ٹاملناڈو اور کیرالا سے اپوزیشن حکومتوں کا خاتمہ کرنا چاہتی ہے۔ ممتا بنرجی نے اس سازش کو محسوس کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو وارننگ دی ہے کہ اگر ایک ووٹ بھی خارج کیا گیا تو عوام خاموش نہیں رہیں گے۔ نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد مغربی بنگال میں بی جے پی کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوا ہے ۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق بنگال میں محض 30 لاکھ ووٹ سیاسی پارٹیوں کی قسمت بدل سکتے ہیں۔ بہار میں 65 لاکھ ووٹ خارج کئے گئے اور 21 لاکھ ناموں کا اضافہ ہوا ۔ 50 نشستوں میں 46 ایسی ہیں جہاں ووٹ کٹوتی سے بی جے پی کو کامیابی حاصل ہوئی۔ بہار کے نتائج کو دیکھتے ہوئے ممتا بنرجی نے چوکسی اختیار کرلی ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ ممتا بنرجی بی جے پی کی سازش کو کس طرح روک پائیں گی۔ بہار کی کامیابی سے سرشار وزیراعظم نریندر مودی نے کانگریس پارٹی میں پھوٹ کا واضح طورپر اشارہ دیا ہے ۔ مودی کے مطابق کانگریس کے کئی قائدین راہول گاندھی کی قیادت سے مطمئن نہیں ہیں۔ مودی کا یہ الزام دراصل مائینڈ گیم کا حصہ ہے اور وہ کانگریس میں ناراض سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتے ہیں۔ مہاراشٹرا میں شیوسینا اور نیشنلسٹ کانگریس کو بی جے پی نے دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ حد تو یہ ہوگئی کہ شیوسینا کے بانی بال ٹھاکرے کے فرزند ادھو ٹھاکرے کو پارٹی کا نام اور انتخابی نشان بھی نہیں ملا اور یہ دونوں باغی گروپ کے حصے میں آئے۔ اسی طرح شرد پوار بھی پارٹی کے نام اور انتخابی نشان سے محروم ہوگئے کیونکہ الیکشن کمیشن نے باغی گروپ کو حقیقی پارٹی کے طور پر تسلیم کیا تھا۔ کیا نریندر مودی واقعی کانگریس کے خلاف کوئی سازش کر رہے ہیں ، اس کا خلاصہ آنے والے دنوں میں ہوجائے گا۔ بہار کے نتائج پر شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
تم کو لگتا ہے کہ تم جیت گئے ہو مجھ سے
ہے یہی بات تو پھر کھیل دوبارہ ہوجائے