یکساں طلاق کوڈ… یکساں سیول کوڈ کی تیاری
بنگال پر یلغار … بی جے پی کی دال نہیں گلے گی
رشیدالدین
کشمیر سے دفعہ 370 کی برخواستگی اور رام مندر کے آغاز کے بعد بی جے پی ایجنڈہ کا جو ایٹم باقی رہ گیا وہ یکساں سیول کوڈ کا نفاذ یعنی دستور کی دفعہ 44 پر عمل آوری ہے۔ ایجنڈہ کے تینوں امور کی تکمیل کیلئے بی جے پی اس وقت سے جدوجہد کر رہی ہے جب لوک سبھا میں اس کے ارکان کی تعداد محض 2 تھی ۔ عزم اور ارداے مضبوط ہوں تو منزل کو پانا مشکل نہیں ۔ ٹھیک اسی طرح بی جے پی نے کمزور موقف میں بھی ایجنڈہ کے تینوں امور پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ مرکز میں مختلف جماعتوں کی تائید سے مخلوط حکومت کی تشکیل کے موقع پر حلیف جماعتوں کے اصرار پر متنازعہ ایجنڈہ کو عارضی طور پر ملتوی کرنے کا اعلان کیا لیکن پارٹی منشور سے خارج نہیں کیا۔ یہ وہ دور تھا جب کانگریس کو دو تہائی اکثریت حاصل رہی اور سیکولر جماعتوں کی مخلوط حکومتیں مرکز میں برسر اقتدار رہیں لیکن سیکولر اصولوں اور نظریات کے فروغ و استحکام پر اس قدر توجہ نہیں دی گئی جتنی کہ ضرورت تھی۔ اگر سیکولر جماعتوں کی حکومتیں وی پی سنگھ سے لے کر منموہن سنگھ تک سیکولرازم کو مضبوط کرتیں تو بی جے پی آج کی طرح طاقتور نہ ہوتی۔ حکومتوں کو بچانے کی فکر نے سیکولر ایجنڈہ سے توجہ ہٹادی جس کے نتیجہ میں بی جے پی کو سر ابھارنے کا موقع ملا۔ یہ بات کہنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ سیکولر طاقتوں کی کمزوری سے بی جے پی کو فائدہ ہوا۔ بی جے پی پر وہ دور بھی گزرا جب رام مندر ، 370 کی برخواستگی اور یکساں سیول کوڈ کے وعدوں کو سن کر لوگ ہنستے تھے کیونکہ محض دو ارکان کے ساتھ یہ عزائم جاگتی آنکھوں کے خواب کی طرح تھے ۔ جہد مسلسل کے ذریعہ بی جے پی نے واضح اکثریت کے ساتھ نہ صرف پہلی بلکہ دوسری میعاد بھی حاصل کرلی۔ گزشتہ 6 برسوں میں بی جے پی نے کشمیر سے 370 کی برخواستگی اور رام مندر کے وعدوں کی تکمیل کرلی جبکہ یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کے لئے پیشرفت جاری ہے۔ شریعت میں مداخلت کے ذریعہ اس کا آغاز ہوا اور طلاق ثلاثہ پر پابندی عائد کرتے ہوئے اسے تعزیری جرم قرار دیا گیا ۔ یہ دراصل پہلا قدم تھا۔ بی جے پی کو رام مندر دفعہ 370 اور طلاق ثلاثہ کے معاملہ میں شدید مزاحمت کا خوف تھا لیکن تینوں مواقع پر کوئی ایسا رد عمل سامنے نہیں آیا جو حکومت کو فیصلہ واپس لینے پر مجبور کردے۔ بی جے پی کو یقین ہوگیا کہ قوم پر بے حسی چھائی ہے اور کوئی مزاحمت ہونے والی نہیں ہے ، لہذا اس نے یکساں طلاق قانون کا نیا شوشہ چھوڑ دیا۔ ملک کے تمام مذاہب کے لئے طلاق کے یکساں قوانین کا مطلب تمام مذاہب کے پرسنل لاز کو ختم کرنا ہے جوکہ دوسرے معنوں میں یکساں سیول کوڈ کا آغاز ہوگا۔ سپریم کورٹ نے ملک کے لئے طلاق کے یکساں قانون کے حق میں دائر کردہ درخواست کو سماعت کیلئے قبول کرلیا اور مختلف وزارتوں سے رائے طلب کی ہے۔ قومی لاء کمیشن سے قانون سازی کی سفارش کا امکان ہے ۔
ایجنڈہ کی تکمیل کے لئے بی جے پی حکومت نے ہمیشہ عدلیہ کا سہارا لیا ہے ۔ طلاق ثلاثہ اور رام مندر کے معاملہ میں عدلیہ کے موافق رول کو دہرانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہر باشعور شہری واقف ہے۔ دفعہ 370 کے معاملہ کی سماعت کو یکسوئی کے بجائے ٹالا جارہا ہے۔ یکساں طلاق قانون کے سلسلہ میں بھی عدلیہ اور لا کمیشن کا سہارا لے کر ایجنڈہ کی تکمیل کی جائے گی ۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواس کا نعرہ تو برقرار ہے لیکن عمل اس کے برعکس ہے۔ جہاں تک شادی بیاہ اور طلاق کا معاملہ ہے ، ہر مذہب کے ماننے والوں کے رسم و رواج اور روایات مختلف ہیں۔ قبائل کی روایات اور قوانین دوسروں سے جداگانہ ہیں، لہذا سارے ملک کیلئے شادی اور طلاق کے یکساں قوانین کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ طلاق کے یکساں قوانین کے نفاذ کی کوشش پر مزاحمت کے امکانات کم ہیں، لہذا بی جے پی کے لئے پیش قدمی آسان ہے۔ یکساں طلاق قانون تمام مذاہب کے لئے دراصل ایک بہانہ ہے ۔ اصل نشانہ تو شریعت اسلامی ہے ۔ انصاف ، انسانیت اور غیر جانبداری سے جائزہ لیں تو اسلام سے بہتر تعلیمات کسی اور مذہب میں نہیں ہیں ۔ اسلام حقیقی دین فطرت ہے اور شادی و طلاق کے قوانین انصاف پر مبنی ہیں۔ اسلام نے طلاق کے معاملہ میں آخری لمحہ تک نباہ کی کوشش کو شامل رکھا ہے تاکہ خاندان بکھرنے نہ پائیں۔ اسلام نے جبراً رشتۂ ازدواج میں باندھ کر رکھنے کی مخالفت کی ہے۔ باوجود اس کے اسلامی طریقہ طلاق کو ہمیشہ بدنام کرتے ہوئے خواتین پر ظلم سے تعبیر کیا گیا۔ اسی کی آڑ میں طلاق ثلاثہ پر پابندی عائد کردی گئی ۔ اگر طلاق کے قانون سے حکومت کو اتنی ہی نفرت ہے تو تمام مذاہب کے لئے طلاق پر پابندی عائد کر کے دیکھے۔ پتہ چلے گا کہ جوڑوں کو کب تک جبراً باندھ کر رکھا جاسکتا ہے ۔ طلاق ثلاثہ پر تو پہلے ہی پابندی عائد کردی گئی ہے اور جو طریقہ کار باقی ہے ، وہ بھی فرقہ پرست طاقتوں کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے۔ قوانین میں تبدیلی سے دیگر مذاہب کو زیادہ فرق نہیں پڑے گا لیکن شریعت کو نشانہ بناتے ہوئے یکساں سیول کوڈ کے خواب کی تکمیل کرنا اصل مقصد ہے۔ شریعت کے تحفظ کے معاملہ میں بے حسی عروج پر ہے ۔ ہم سے بہتر تو ٹاملناڈو کے عوام ہیں جنہوں نے جلی کٹو (جانوروں کی دوڑ) کی روایت پر سپریم کورٹ کی پابندی کے خلاف کچھ ایسا احتجاج کیا کہ سپریم کورٹ کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔ جب ٹامل عوام ایک روایت اور رسم سے اس قدر جذباتی وابستگی رکھ سکتے ہیں تو پھر شریعت سے ہماری وابستگی کیوں نہیں؟ عمل سے دوری نے مسلمانوں کو شریعت سے بھی دور کردیا اور سرکاری قوانین کے اسیر بن گئے۔ طلاق ثلاثہ کے سلسلہ میں لاء کمیشن کو سابق میں کروڑہا دستخطوں کے ساتھ نمائندگی کی گئی تھی لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔ مسلم سیاسی اور مذہبی قیادتوں نے صرف بیان بازی کو اپنی ذمہ داری کی تکمیل سمجھا۔ مقصد کی تکمیل کیلئے ایثار و قربانی کا جذبہ ضروری ہے ۔ ٹامل عوام نے کوئی نمائندگی نہیں کی بلکہ سڑکوں پر نکل کر سارا نظام ٹھپ کردیا اور سپریم کورٹ کو عوام کے آگے جھکنا پڑا۔ نکاح اور طلاق کے اسلامی قوانین کے فطری ہونے کے بارے میں ملک کے حکمراں کیا جانیں گے جو شادی میں مکمل ہیں نہ طلاق میں ۔ جس نے ازدواجی زندگی کا مزہ ہی نہیں چکھا ہو اس کے لئے شادی و طلاق دونوں برابر ہیں۔ رفیق حیات کے ساتھ زندگی بسر کرتے تو آٹے دال کے بھاو کا پتہ چلتا لیکن یہاں گھر والی کے بجائے ریڈیو سے من کی بات کر رہے ہیں۔ طلاق کے یکساں قوانین وضع کرنے سے قبل سپریم کورٹ کو چاہئے کہ بیوی کو بے یار و مددگار ، بے آسرا اور در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کرنے والے برائے نام شوہروں کیلئے سزا تجویز کرے۔ انصاف پر مبنی یکساں سیول کوڈ نافذ کرنا ہو تو شریعت اسلامی سے بہتر قوانین نہیں ہوسکتے۔ ان اصولوں پر عمل آوری میں انسانیت کی بھلائی اور نجات ہے۔ اس کے لئے اسلام سے الرجی کا جذبہ اور تعصب کو ختم کرنا ہوگا۔
بی جے پی کو عوامی مسائل سے زیادہ ریاستوں میں برسر اقتدار آنے کی فکر ہے ۔ ملک کے کسان دہلی کی سرحدوں کو بند کرتے ہوئے احتجاج پر ہیں لیکن مودی حکومت نے کورونا کے نام پر پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس منسوخ کردیا ۔ جس وقت کورونا عروج پر تھا ، اس وقت پارلیمنٹ طلب کی گئی اور حکومت نے اپنی مرضی کے قوانین کو منظوری دی۔ اب جبکہ کورونا کا زور کم ہوچکا ہے ، حکومت کسانوں کی ناراضگی سے بچنے کیلئے پارلیمنٹ اجلاس طلب کرنا نہیں چاہتی۔ حالانکہ پہلے سے زیادہ پارلیمنٹ اجلاس کی آج ضرورت ہے۔ بی جے پی نے مغربی بنگال میں اقتدار کا خواب دیکھا ہے۔ ممتا بنرجی کو نشانہ بنانے کے لئے امیت شاہ ، جے پی نڈا اور دیگر قائدین کے پاس بنگال کے دورہ کے لئے کافی وقت ہے لیکن کسانوں کے مسائل کے حل کی فکر نہیں۔ کرناٹک اور مدھیہ پردیش میں کانگریس سے حکومتوں کو چھیننے کے بعد بی جے پی بنگال پر نشانہ لگاچکی ہے۔ مغربی بنگال میں فرقہ پرست ایجنڈہ کارگر ثابت نہیں ہوسکتا لہذا مبصرین کے مطابق بنگال میں بی جے پی کی دال نہیں گلے گی۔ چاہے امیت شاہ بار بار دورہ کیوں نہ کریں اور جے پی نڈا عوام کے پتھر کیوں نہ کھائیں۔ کیرالا کو نشانہ بنایا گیا لیکن مجالس مقامی کے انتخابات میں عوام نے بی جے پی کو مسترد کردیا ۔ کیرالا اور مغربی بنگال نظریاتی ریاستیں ہیں جہاں بی جے پی کی ہرگز نہیں چلے گی۔ پروفیسر وسیم بریلوی نے کچھ یوں تبصرہ کیا ہے ؎
تم گرانے میں لگے تھے تم نے سوچا ہی نہیں
میں گرا تو مسئلہ بن کر کھڑا ہوجاؤں گا