اسرائیلی سلامتی کے حوالہ سے میرے عزم میں کوئی تبدیلی نہیں، مشترکہ دارالحکومت یروشلم کی وکالت
واشنگٹن ۔ اب جب کہ فلسطینی اور اسرائیلی گیارہ دنوں کی جنگ سے ہونے والے نقصانات کا جائزہ لے رہے ہیں، امریکی صدر جو بائیڈن نے دو ریاستی حل پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطی میں امن کا یہی واحد حل ہے۔ صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ بندی کو ‘دو ریاستی حل‘ کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے، کیونکہ دو ریاستوں کا قیام ہی تنازعہ کا واحد حل ہے، لیکن اسرائیل کے وجود کو واضح طور پر تسلیم کیے بغیر خطے میں ‘امن ممکن نہیں‘ ہے۔امریکی صدر نے اسی کے ساتھ زور دے کر کہا، ”اسرائیل کی سلامتی کے حوالے سے میرے عزم میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔‘‘اسرائیل کے ساتھ ہی ایک خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام، جن کا مشترکہ دارالحکومت یروشلم ہو، گزشتہ کئی دہائیوں سے اسرائیل فلسطین تنازعہ کے حل میں عالمی سفارت کاری کا بنیادی جز رہا ہے۔تاہم صدر ٹرمپ کے دور میں امریکی روایتی دو ریاستی حل سے مختلف دکھائی دی تھی۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا کیونکہ وہ نہ صرف واضح طور پر اسرائیل نواز تھی، سلامتی کے معاملے پر اسرائیل کو فلسطین پر نہ صرف بالادستی حاصل تھی بلکہ فلسطینیوں کو محدود خود مختاری دی گئی تھی۔ فلسطینی رہنماؤں نے یہ منصوبہ مسترد کر دیا تھا۔صدر بائیڈن نے جمعہ کو دوبارہ دو ریاستی حل پر زور دیا لیکن ساتھ میں انہوں نے کہا، ”اسرائیل کی سلامتی کے معاملے میں میرے عزم میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ بالکل کوئی تبدیلی نہیں آئی لیکن میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ کیا تبدیلی آئی ہے۔ تبدیلی یہ ہے کہ ہمیں دو ریاستی حل کی ضرورت ہے۔ یہ مسئلے کا واحد حل ہے۔ صدر بائیڈن نے جمعہ کے روز وائٹ ہاوس میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ جنگ بندی کے برقرار رہنے کی ‘دعا‘ کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ امریکہ غزہ کی تعمیر نو کے لیے منظم شکل دینے میں مدد کرے گا۔جو بائیڈن نے فلسطینی اتھارٹی کو ایک ‘بڑا امدادی پیکج‘ دینے کا وعدہ کیا تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جا سکے کہ حماس دوبارہ فوجی ساز و سامان میں جمع نہ کرسکے۔اقوام متحدہ نے بھی غزہ کی تعمیر نو کے لیے ہنگامی مالی امداد کا اعلان کیا ہے۔دس مئی سے شروع ہو کر گیارہ دنوں تک چلنے والی جنگ کے دوران غزہ میں زبردست تباہی ہوئی ہے۔اسرائیل کے فضائی حملوں میں 248 افراد ہلاک ہوئے جن میں 66 بچے شامل ہیں جب کہ 1948 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ان حملوں میں حماس کے متعدد جنگجوؤں کے مارے جانے کی بھی اطلاعات ہیں۔اقوام متحدہ کی انسانی حقوق ایجنسی کے مطابق اسرائیلی بمباری کی وجہ سے سینکڑوں مکانات، ہسپتال اور عمارتیں تباہ ہو گئیں۔ حماس کے مطابق 205 رہائشی بلاک مکمل طورپر تباہ ہوئے نیز 75 سرکاری اور عوامی عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار افرا د بے گھر ہو گئے ہیں۔اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ غزہ سے جنگجوؤں نے اسرائیل پر 4300 سے زائد راکٹ فائر کیے لیکن ان میں سے 90 فیصد کو اسرائیلی فضائی ڈیفنس نے فضا میں ہی ناکام کر دیا۔حماس کے راکٹ حملوں میں بارہ اسرائیلی مارے گئے جن میں ایک بچہ اور ایک اسرائیلی فوجی شامل ہے۔زخمی ہونے والے اسرائلیوںکی تعداد 360ہے۔