لاک ڈاؤن کے صرف 8روز کے اندر ہی حکومت معاشی تباہی کا شکار ، مشکل گھڑی میں سرکار نے ہی ساتھ چھوڑ دیا
حیدرآباد۔31مارچ(سیاست نیوز) تنخواہ کی کٹوتی کے سلسلہ میں حکومت کے فیصلہ پر وظیفہ یابان اور سرکاری ملازمین میں شدید برہمی پائی جانے لگی ہے کیونکہ حکومت کی جانب سے حالات کی دہائی دیتے ہوئے جس طر ح سے تنخواہ میں کٹوتی کا اعلان کیا ہے اس سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہحکومت صرف اندرون8یوم معاشی تباہی کا شکار ہوچکی ہے۔ چیف منسٹر نے گذشتہ یوم عہدیداروں سے مشاورت کے بعد سرکاری ملازمین کے علاوہ کابینہ اور عوامی نمائندوں کی تنخواہوں میں کٹوتی کا اعلان کرتے ہوئے ملک بھر کی ریاستوں میں ایک نئی مثال قائم کی ہے کیونکہ مرکزی یا ملک کی کسی بھی ریاستی حکومت کی جانب سے کورونا وائرس کے سبب پیدا ہونے والے حالات سے نمٹنے کیلئے اس طرح کے اقدامات کی کوئی دلیل نہیں ملتی لیکن حکومت تلنگانہ نے سرکاری ملازمین اور وظیفہ یابان کی رقومات میں کٹوتی کا فیصلہ کیا ہے جو کہ غیر دستوری ہے۔ حکومت کی جانب سے کئے گئے اس فیصلہ کے بعد وظیفہ یابان اور سرکاری ملازمین میں شدید برہمی پائی جانے لگی ہے اور کہا جا رہاہے کہ ملازمین کی تنظیموں کے علاوہ وظیفہ یابان نے حکومت کے ان احکامات کے خلاف عدالت سے رجوع ہونے پر غور کرنا شروع کردیا ہے۔ حکومت تلنگانہ کی جانب سے ملازمین کی تنخواہوں میں 50 فیصد کی کٹوتی ‘ آئی اے ایس ‘ آئی پی ایس‘ آئی آر ایس اور آئی ایف ایس کی تنخواہوں میں 60 فیصد کی کٹوتی کے علاوہ عوامی نمائندوں ‘ صدورنشین اور ریاستی کابینہ میں شامل وزراء کی تنخواہ میں 75فیصد کی کٹوتی کا فیصلہ کیا گیا ہے جس سے ملازمین میں ناراضگی پائی جاتی ہے۔ محکمہ تعلیم سے وابستہ ایک ملازم نے بتایا کہ سرکاری ملازمین جو تنخواہ پر منحصر ہوتے ہیں ان کی جانب سے اخراجات کی منصوبہ بندی ہوتی ہے اور اس طرح حکومت کی جانب سے اچانک فیصلہ کرتے ہوئے تنخواہوں میں کمی کرنے سے ان کے منصوبوں تباہ ہونے کا خدشہ ہے۔ اسی طرح وظیفہ یابان کا کہناکہ ریاستی حکومت کی جانب سے وظیفہ یابان کو موجودہ صورتحال میں سہولت کی فراہمی کے بجائے ان پر مزید بوجھ عائد کیا جا رہاہے۔ محکمہ مال سے وظیفہ حسن پر سبکدوش ہونے والے ایک عہدیدار نے بتایا کہ حکومت کے اقدام سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ریاستی حکومت کورونا کی آڑ میں اپنے خسارہ کو دور کرنے میں مصروف ہے کیونکہ حکومت کی جانب سے ایک جانب خانگی کمپنیوں کو اس بات کی ہدایات جاری کی جا رہی ہیں کہ وہ اپنے ملازمین کو اس مشکل گھڑی میں ساتھ دیں اور انہیں گھر بٹھا کر تنخواہ دی جائے اور حکومت تلنگانہ نے اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں تخفیف کے ذریعہ یہ ثابت کردیا ہے کہ ریاستی حکومت کنگال ہوچکی ہے اور وظیفہ یابان اور ملازمین کے پیسہ سے اپنا بچاؤ کررہی ہے۔ حکومت تلنگانہ کی جانب سے کئے جانے والے اقدام سے ناخوش ملازمین کا کہناہے کہ حکومت نے جو لاک ڈاؤن کا اعلان کیا ہے اس کے باوجود ایمرجنسی خدمات ‘ محکمہ صحت‘ محکمہ پولیس ‘ بلدیہ ‘ محکمہ زراعت کے علاوہ دیگر ضروری خدمات کو جاری رکھا ہے اور ان کی خدمات 24گھنٹے حاصل کی جا رہی ہے اور چیف منسٹر کے اعلانات کے بعد سمجھا جا رہا تھا کہ ریاست تلنگانہ کے عوام کیلئے بھی حکومت کی جانب سے متعدد اقدامات کئے جائیں گے لیکن ریاستی حکومت نے ملازمین اور وظیفہ یابان کی رقومات کی کٹوتی سے یہ ثابت کردیا کہ ریاستی حکومت اپنے نقصانات کی پابجائی کی کوشش میں مصروف ہے۔ حکومت تلنگانہ کی جانب سے کئے جانے والے اس فیصلہ کے سبب پائی جانے والی ناراضگی کے متعلق وظیفہ یابان کا کہناہے کہ عوامی نمائندوں اور وزراء کو ایک ماہ نہیں بلکہ ایک سال یا 5سال بھی تنخواہ نہ دی جائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں تخفیف کے کافی اثرات ہوتے ہیں۔ وظیفہ یابان و ملازمین نے حکومت سے استفسار کیا کہ 10 دن میں ایسی کیا مجبوری ہو گئی کہ حکومت کو ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی کا فیصلہ کرنا پڑگیا ۔ محکمہ پولیس ‘ صحت‘ بلدیہ اور دیگر ہنگامی خدمات انجام دینے والی ملازمین بھی اس فیصلہ سے مجسم حیرت بن چکے ہیں کیونکہ ان کا احساس تھا کہ وہ کورونا وائرس کے خلاف جاری اس جنگ کو جیتنے کیلئے سڑکوں اور دواخانوں میں ہیں تو حکومت کی جانب سے انہیں ایوارڈ یا اعزاز دیا جائے گا لیکن حکومت نے ان کی بھی تنخواہوں میں کمی کے ذریعہ حیرت میں مبتلاء کردیا ہے۔ حکومت کے فیصلہ سے تمام محکمہ جات میں خدمات انجام دینے والوں میں ناراضگی پائی جانے لگی ہے اور حکومت کے اس فیصلہ کے خلاف عدالت سے رجوع ہونے کے متعلق منصوبہ بندی کی جارہی ہے ۔ آفات کے حالات میں سرکاری ملازمین سے ایک یوم کی تنخواہ لیا جانا معمول کی بات ہے لیکن اس طرح تنخواہوں کی کٹوتی غیر قانونی ہے اور ملک بھر میں کسی بھی ریاست کی جانب سے تنخواہوں کی کٹوتی کا فیصلہ نہیں کیا گیا اور کورونا وائرس سے نمٹنے کے اقدامات کئے جارہے ہیں۔