تندرست اندرا کرن ریڈی، صحتمند سیاست

   

سید جلیل ازہر
ہر کسی نے بچپن میں یہ تو پڑھا ہوگا کہ تندرستی ہزار نعمت ہے۔ آج ساری دنیا کو یہ بات سمجھ میں آرہی ہے۔ ہر شخص صحت مند رہنے کیلئے اپنی اپنی زندگیوں میں کئی ایک تبدیلیاں لا رہا ہے۔ اس معاملے میں جب بھی ریاستی وزیر اے اندرا کرن ریڈی سے کوئی بھی ملاقات کرتا ہے، تو حیران رہ جاتا ہے کہ رات دن عوامی خدمت میں مصروف اس قائد نے اپنے علاقہ کے عوام میں جو مقام بنایا ہے، اس کو سیاسی تاریخ بھلا نہیں سکتی۔ اپنی عمر کے 73 برس مکمل کرنے والے قائد اس وقت عوام کی توجہ کا مرکز بن گئے جب گزشتہ ماہ ورلڈ سائیکل ڈے کی ریالی کا افتتاح نرمل منی اسٹیڈیم میں کرنے کے بعد خود بھی ٹی شرٹ پہنے ہوئے سائیکل ریالی میں حصہ لیا بلکہ 15 کیلومیٹر کا سفر بھی سائیکل پر طئے کیا اور ایک پیام دیا کہ بچوں کو بچپن ہی سے سائیکل کا عادی بنایا جائے تاکہ صحت مند رہ سکے۔ اس عمر کو پہنچنے کے باوجود انتہائی چاق و چوبند یہ سیاسی قائد عوام میں اپنی مقبولیت کو بھی قائم رکھے ہوئے ہے۔ جس طرح صحت قائم ہے۔ وزیر موصوف کی ایک خصوصیت بلکہ ان کی خوبی یہ ہے کہ عوام میں اپنے حسن سلوک کے ساتھ ساتھ مسائل کی یکسوئی کیلئے وعدہ کرتے ہوئے اس کو نبھانے کی صلاحیت ان میں موجود ہے۔ کہتے ہیں کے کامیاب لوگ اپنے ہونٹوں پر دو چیزیں رکھتے ہیں۔ خاموشی اور مسکراہٹ۔ خاموشی مسائل سے دور رہنے کیلئے، مسکراہٹ مسائل حل کرنے کیلئے۔ دنیا جانتی ہے کہ کامیابی ہاتھوں کی لکیروں میں نہیں بلکہ ماتھے کے پسینے میں ہوتی ہے۔ 16 فروری 1949ء میں نرمل منڈل کے موضع یلاپلی میں ایک کسان کے گھر میں آنکھ کھولنے والے اندرا کرن ریڈی جن کی ابتدائی تعلیم نرمل میں ہوئی۔ گری راج کالج نظام آباد سے کامرس میں گریجویشن مکمل کرنے کے بعد عثمانیہ یونیورسٹی سے وکالت کی ڈگری حاصل کرکے 1978ء میں سرگرم سیاست میں حصہ لینے والے اس قائد نے اُس وقت تلگو دیشم کے ٹکٹ پر ایک لاکھ ووٹوں سے کامیابی حاصل کی۔ اندرا کرن ریڈی کی شہرت اور مقبولیت کو دیکھتے ہوئے آنجہانی این ٹی راما راؤ نے انہیں 1991ء کے پارلیمانی انتخابات میں حلقہ لوک سبھا عادل آباد سے میدان میں اُتارا اور پھر وہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئے۔ بعدازاں اس وقت کے وزیراعظم پی وی نرسمہا راؤ کی لوک سبھا تحلیل ہوئی اور وسط مدتی انتخابات سے ملک کو بچانے انہوں نے کانگریس میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ اے اندرا کرن ریڈی وہ خوش نصیب سیاسی قائد ہیں جن کے قدموں میں شہرت نے سر رکھا، جن کی پیشانی کو عظمتوں نے بوسہ دیا، جن کا سیاسی سفر کافی طویل ہے۔ ان کے سیاسی سفر کا اندازہ ان کی عمر سے لگایا جاسکتا ہے۔ ٹی آر ایس کی دوسری میعاد میں بھی وہ ریاستی وزیر بنائے گئے۔ آج چیف منسٹر چندرا شیکھر راؤ کے انتہائی قریبی رفیقوں میں ان کا شمار ہوتا ہے جبکہ اپنے حلقہ میں ہر طبقہ ان کے حسن سلوک سے بے حد متاثر ہے اور یہ حقیقت ہے کہ کامیابی صرف محنت کی دیوانی ہوتی ہے۔ کامیابی کبھی کسی کی شکل دیکھ کر قدم نہیں چومتی، ہر انسان کو صبر کی عادت ڈالنی چاہئے جو تعمیر شروع کرنے سے پہلے سامان تعمیر جمع کرتا ہے، پھر دیوار اٹھانے سے پہلے بنیادیں کھودنے اور ان کو مضبوطی کے ساتھ رکھنے میں کافی وقت اور محنت صرف کرتا ہے پھر ایک ایک اینٹ چنتا ہے اور جب تک ایک اینٹ کو مستحکم نہیں کرلیتا، دوسری اینٹ کو ہاتھ نہیں لگاتا۔ جس قائد میں اتنا صبر نہیں ہے اور جو بنیاد کھودنے سے پہلے چھت ڈالنا چاہتا ہے، اس کے لئے کام کا صحیح میدان ذہن نہیں بلکہ ہوا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ جو انسان پانی سے نہاتا ہے وہ لباس بدلتا ہے، مگر جو انسان پسینے سے نہاتا ہے وہ تاریخ بدلتا ہے۔ نمائندہ سیاست سید جلیل ازہر نے ریاستی وزیر اے اندرا کرن ریڈی سے ان کی صحت کا راز جاننے کی کوشش کی تو مسکراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں اپنی صحت کا خیال رکھوں تو ہی عوام کا خیال رکھ سکوں گا، اس لئے ہر دن وقت نکال کر ورزش کیا کرتا ہوں۔ دوسری اہم بات میرے والدین کے آشیرواد اور عوام کی بلالحاظ مذہب و ملت بے پناہ محبت سے جو خوشی ملتی ہے، وہ بھی صحت کا ایک اہم جز ہے۔ وزیر موصوف کے انداز کارکردگی پر بے ساختہ یہ بات ذہن میں آتی ہے۔ (ریاستی وزیر سے راست بات کی جاسکتی ہے۔
پرندوں میں کبھی فرقہ پرستی نہیں دیکھی ہم نے
کبھی مندر پر جا بیٹھتے تو کبھی مسجد پر جا بیٹھتے