ٹرمپ کیوں ناراض ہیں مودی سے؟
یوگی …اُردو کی بُرائی بھی اُردو زبان میں
رشیدالدین
’’بدلے بدلے مرے سرکار نظرآتے ہیں‘‘۔ وزیراعظم نریندر مودی کے ذہن میں یہی جملہ ایک سوال بن کر گونج رہا ہے۔ ڈیئر فرینڈ کے دوسری مرتبہ امریکی صدر منتخب ہونے پر مبارکباد دینے کے لئے نریندر مودی دوڑے دوڑے واشنگٹن پہونچے تھے۔ سفر کے دوران نریندر مودی کو اپنے دوست کی جانب سے والہانہ استقبال اور دوستی کے رشتوں کے مزید استحکام کی اُمید تھی۔ نریندر مودی کو یقین تھا کہ واشنگٹن میں اُن کا والہانہ استقبال ہوگا اور ٹرمپ ۔ مودی کی اٹوٹ دوستی کا ساری دنیا نظارہ کرے گی۔ نریندر مودی کو کیا پتہ تھا کہ ڈونالڈ ٹرمپ وہ نہیں رہے جو پہلی میعاد میں صدارتی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد تھے۔ امریکہ کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی سب کچھ بدلا بدلا دکھائی دے رہا تھا۔ ’’گئے وہ دن کبھی پہلو میں دل دھڑکتے تھے‘‘ کے مصداق نریندر مودی کو دوست کے گھر میں بھی اجنبیت کا احساس ہونے لگا۔ ٹرمپ نے بن بلائے مہمان کی طرح نریندر مودی سے رسمی انداز میں سفارتی اُصولوں کے مطابق ملاقات کی۔ ملاقات میں گرمجوشی کے بجائے سرد مہری کے رویہ نے وزیراعظم اور اُن کی ٹیم کو حیرت میں ڈال دیا۔ ٹرمپ کے جائزہ لینے کے بعد کسی تاخیر کے بغیر ملاقات کرتے ہوئے امریکہ سے قربت اختیار کرنے کے منصوبہ پر جیسے پانی پھر گیا۔ دونوں قائدین نے مصافحہ اور معانقہ بھی کیا، گلے تو مل رہے تھے لیکن دلوں میں فاصلہ برقرار رہا۔ نریندر مودی جس اُمید کے ساتھ امریکہ گئے تھے وہاں اُنھیں اِس لئے بھی مایوسی ہوئی کیوں کہ ڈونالڈ ٹرمپ بدل چکے تھے۔ ہندوستان کے بارے میں اُن کے نظریات تبدیل ہوگئے جس کا اثر حکومت کی پالیسی پر صاف دکھائی دے رہا ہے۔ ڈیئر فرینڈ سے ملاقات کے باوجود ٹرمپ کا دل نہیں بدلا اور اُنھوں نے ہندوستان کے حق میں ایک بھی اہم فیصلہ کا اعلان نہیں کیا۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ٹرمپ نے اپنی دوسری میعاد میں دوستوں کی نئی فہرست تیار کرلی ہے۔ ہندوستان سے امریکہ کے مفادات شاید ختم ہوگئے لہذا ٹرمپ نے اپنی پالیسی بدل دی۔ مودی کے دورے سے لیکر آج تک امریکہ کے مخالف ہندوستان فیصلوں سے ہر کسی کے ذہن میں یہ سوال گونج رہا ہے کہ ٹرمپ آخر بدل کیوں گئے؟ کیا اُنھیں اب نریندر مودی پر بھروسہ نہیں رہا۔ اگر اِس کا جواب ہاں میں ہے تو پھر اعتماد شکنی کی وجوہات کیا ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ نریندر مودی نے پہلی میعاد میں اپنی جملہ بازی سے متاثر کیا اور بعد میں دوستی کے دعوے کھوکھلے ثابت ہوئے جس طرح عوام سے کئے گئے انتخابی وعدے کھوکھلے نکلے تھے۔ امریکہ سے واپسی کے بعد سے شاید مودی بھی یہ طے نہیں کرپارہے ہیں کہ آخر ٹرمپ کے تیور اچانک بدل کیوں گئے۔ ’’میرے دوست قصہ یہ کیا ہوگیا‘‘ کے فلمی نغمے کے طرح نریندر مودی اپنے دوست کی بے وفائی پر حیرت میں ہیں۔ امریکہ روانگی سے قبل ٹرمپ نظم و نسق نے غیر قانونی طور پر مقیم ہندوستانیوں کی گھر واپسی کا عمل شروع کردیا تھا۔ اُمید کی جارہی تھی کہ مودی سے ملاقات کے بعد ہندوستانیوں کی واپسی کا سلسلہ رُک جائے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ امریکہ میں قدم رکھتے ہی مودی کو استقبال کے موقع پر اندازہ ہوا ہوگا کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ مودی سے قبل جاپان اور اسرائیل کے وزرائے اعظم اور شاہِ اردن نے ٹرمپ سے ملاقات کی تھی اور تینوں کا استقبال ٹرمپ نے قیامگاہ کے باہر گاڑی کے پاس پہونچ کر کیا جبکہ نریندر مودی کے استقبال کے لئے ٹرمپ باہر نہیں آئے اور ایک خاتون عہدیدار نے اُن کا استقبال کیا۔ ہندوستان جو دنیا کی بڑی جمہوریت کے ساتھ اُبھرتی عالمی طاقت کی طرح ہے، مودی ہندوستان کو ’’وشوا گرو‘‘ بنانے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن امریکی صدر نے حقیقت کا سامنا کرادیا۔ کیا جاپان، اسرائیل اور اُردن کے مقابلے ہندوستان کی اہمیت نہیں ہے۔ نریندر مودی امریکہ میں ہی تھے کہ ہندوستانیوں کے دوسرے قافلے کی گھر واپسی کی تیاریاں جاری تھیں۔ وزیراعظم کی واپسی کے بعد مزید 2 امریکی طیارے ہندوستانیوں کو لیکر پنجاب پہونچے۔ ہندوستانیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک پر شرمندگی سے بچنے کے لئے امریکی طیاروں کو پنجاب میں لینڈنگ کی اجازت دی گئی تاکہ وہاں کی عام آدمی حکومت کی بدنامی ہو۔ جب واپس ہونے والے ہندوستانی نوجوان مختلف ریاستوں سے تعلق رکھتے ہیں تو پھر دارالحکومت دہلی میں لینڈنگ کی اجازت دی جائے تاکہ وہاں سے وہ اپنے اپنے مقامات روانہ ہوسکیں۔ نریندر مودی دراصل ہندوستانیوں کی واپسی کا وبال اپنے سر لینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ مودی حکومت اور بی جے پی کو بدنامی اور احساس ندامت سے بچانے کے لئے ہندوستانیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کو میڈیا میں بلیک آؤٹ کیا گیا۔ واپسی کی خبروں اور ہتھکڑی اور بیڑیوں میں جکڑنے کے معاملہ کو بھی گودی میڈیا نے پیش نہیں کیا۔ اگر مرکز میں کانگریس حکومت ہوتی تو گودی میڈیا آسمان سر پر اُٹھالیتا لیکن نریندر مودی حکومت کی پردہ پوشی کی جارہی ہے۔ امریکہ میں غیر قانونی طور پر مقیم دیگر ممالک کے باشندوں کی واپسی کی کوئی مہم دکھائی نہیں دے رہی ہے اور صرف ہندوستانیوں کو ٹارگٹ کرتے ہوئے ملک بدر کیا جارہا ہے۔ مودی کی وطن واپسی کے بعد ٹرمپ کا ہندوستان کے بارے میں رویہ اور بھی سخت ہوگیا۔ الون مسک کی کمپنی ٹیسلا کی جانب سے ہندوستان میں تقررات کی تجویز کی ٹرمپ نے مخالفت کی اور الیکشن میں رائے دہی میں اضافہ کے لئے دی جانے والی 21 ملین ڈالر کی امداد کو روک دیا۔ ہندوستانیوں کو امریکی کمپنیوں میں روزگار کی مخالفت کرتے ہوئے ٹرمپ نے توہین آمیز ریمارک کئے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہندوستانیوں کو امریکی اداروں کے بجائے اپنے ملک میں گندگی کی صفائی کا جاب ملنا چاہئے۔ اُنھوں نے ماحولیاتی آلودگی کے لئے ہندوستان کو ذمہ دار قرار دیا۔
کسی بھی ملک میں موجود غیر قانونی شہریوں کی واپسی میں کوئی قباحت نہیں لیکن ٹرمپ نظم و نسق نے ہندوستانیوں کے ساتھ بیڑی اور ہتھکڑی کا استعمال کرتے ہوئے جو توہین کی ہے اُس پر نریندر مودی نے اپنے دوست سے ایک لفظ تک نہیں کہا۔ آخر ہندوستانیوں کی بے عزتی کو برداشت کرنے کی کیا وجہ ہے۔ ہندوستان کوئی کمزور ملک نہیں کہ امریکہ کی مدد کے بغیر نہیں چل پائے گا۔ آج بھی امریکہ کی بیشتر آئی ٹی کمپنیاں ہندوستانی پروفیشنلس سے چل رہی ہیں۔ امریکی کمپنیوں کو کم اُجرت میں ماہر آئی ٹی پروفیشنلس ہندوستان سے حاصل ہورہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ سے واپسی کے بعد مودی نے دورہ امریکہ پر پارلیمنٹ میں کوئی بیان نہیں دیا اور نہ ہی عوام کو تفصیلات سے واقف کرایا گیا۔ مودی حکومت کے سناٹے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ نے کوئی خاص خاطر داری نہیں کی۔ امریکہ سے واپسی کے فوری بعد امیر قطر ہندوستان کے دورہ پر پہونچے۔ پروٹوکول نظرانداز کرتے ہوئے نریندر مودی نے ایرپورٹ پہونچ کر امیر قطر کا استقبال کیا۔ ظاہر ہے کہ نریندر مودی صرف ’’امیر‘‘ افراد کا استقبال کرتے ہیں اور اُنھیں غریبوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جس وقت نریندر مودی امیر قطر سے والہانہ گلے مل رہے تھے اُسی وقت اترپردیش اسمبلی میں یوگی آدتیہ ناتھ نے اُردو زبان اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی۔ اترپردیش میں اُردو زبان کے استعمال کے مطالبہ پر یوگی آدتیہ ناتھ نے کہاکہ اُردو کے ذریعہ وہ ’’کٹ مُلّا‘‘ تیار کرنا نہیں چاہتے۔ نریندر مودی ایک طرف عرب اور مسلم ممالک سے دوستی کو مستحکم کرتے ہوئے ملک کے مفادات کی تکمیل کی کوشش کررہے ہیں تو دوسری طرف اُن کے شاگردِ خاص یوگی آدتیہ ناتھ نے اُردو زبان کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ نے اسمبلی میں 4 منٹ 28 سیکنڈ تقریر کی جس میں اُردو کے 9 الفاظ کا استعمال کیا یعنی اُردو زبان پر تنقید کے لئے یوگی آدتیہ ناتھ کے پاس ہندی الفاظ نہیں تھے اور اُنھیں اُردو کا سہارا لینا پڑا۔ اُردو کی مقبولیت کا اِس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہوگا کہ اُس کی مخالفت کیلئے اُسی کی استعمال ہورہا ہے۔ ہندوستان میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان صرف اُردو ہے۔ ہندی صرف شمالی ہند تک محدود ہے جبکہ آسام، منی پور، مغربی بنگال، ٹاملناڈو اور کیرالا جیسی ریاستوں میں اُردو کے ادارے اور اخبارات مل جائیں گے۔ وزیراعظم نریندر مودی اپنی تقریروں میں عام طور پر اُردو کے اشعار کا استعمال کرتے ہیں تو کیا یوگی کی نظر میں نریندر مودی ’’کٹ مُلّا‘‘ ہیں؟ یوگی شاید اِس حقیقت سے واقف نہیں کہ اُردو زبان نے ہی ملک کو آزاد کرایا ہے۔ انقلاب زندہ باد اور ہندوستان چھوڑو جیسے نعرے اُردو زبان کی دین ہے۔ تمام مجاہدین آزادی کی تحریریں اور خطوط اُردو زبان میں ہی ملیں گے۔ اُردو نے ہندوستان میں جنم لیا اور پروان چڑھی لیکن یہ مسلمانوں کی زبان نہیں بلکہ ہندوستانیوں کی زبان ہے۔ اُردو کے کئی غیر مسلم شعراء اور ادیبوں کی فہرست ہے جو شاید یوگی کی نظر میں ’’کٹ مُلّا‘‘ قرار پاتے ہیں۔ نریندر مودی اور بی جے پی کا دوہرا معیار نہیں تو کیا ہے عرب ممالک سے دوستی کرتے ہوئے وہاں مندروں کی تعمیر کی راہ ہموار کی جارہی ہے لیکن خود ہندوستان میں مساجد کے نیچے مندروں کی تلاش کا کام جاری ہے۔ نریندر مودی کو عرب ممالک کے سربراہوں کو گلے لگانے میں شاید اِس لئے اعتراض نہیں کہ وہ ’’امیر‘‘ ہیں لیکن ہندوستان کے مسلمانوں کو گلے لگانے تیار نہیں کیوں کہ بقول اُن کے لباس کے ذریعہ مسلمانوں کی شناخت کی جاسکتی ہے۔ ٹرمپ کی سرد مہری سے پریشان نریندر مودی کے جذبات احمد فراز ؔ کے اِس شعر کی طرح ہیں ؎
توبھی ہیرے سے بن گیا پتھر
ہم بھی کل جانے کیا سے کیا ہوجائیں