اسلام آ باد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں سزا معطل کرتے ہوئے انہیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ تاہم انسدادِ دہشت گردی عدالت نے سائفر کیس میں عمران خان کو 30 اگست کو پیش کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل دو رکنی بینچ نے عمران خان کی سزا معطلی کی درخواست پر منگل کو مختصر فیصلہ سنایا۔اسلام آباد کی سیشن عدالت نے عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ سابق وزیرِ اعظم نے ٹرائل کورٹ کے اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے منگل کو محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض عمران خان کی ضمانت منظور کر لی۔عدالت نے کہا ہے کہ کچھ دیر بعد تفصیلی فیصلہ جاری کیا جائے گا۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے سے قبل عمران خان نے اپنے وکیل سلمان صفدر کی وساطت سے ایک درخواست ہائی کورٹ میں دائر کی جس میں عدالت سے استدعا کی ہے کہ انہیں کسی بھی مقدمے میں گرفتاری سے روکنے کے احکامات جاری کیے جائیں۔درخواست گزار کو خدشہ ہے کہ انہیں کسی اور مقدمے میں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔واضح رہے کہ ٹرائل کورٹ کے جج ہمایوں دلاور نے پانچ اگست کو سابق وزیرِ اعظم کو قید و جرمانے کی سزا سنائی تھی جس کے بعدسے وہ اٹک جیل میں قید ہیں۔سابق وزیرِ اعظم پر الزام ہے کہ انہوں نے توشہ خانہ سے لیے گئے تحائف اور ان تحائف کی فروخت سے حاصل کی گئی رقم کی تفصیلات اپنے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس کیس کی سماعت کے دورا ن عمران خان کی جانب سے لطیف کھوسہ اور الیکشن کمیشن کی طرف سے امجد پرویز عدالت میں پیش ہوئے اور دلائل دیے۔پیر کو فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے سزا معطلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔عمران خان کی قانونی ٹیم کا موقف تھا کہ ٹرائل کورٹ نے ان کے گواہوں کو سنے بغیر جلد بازی میں فیصلہ سنایا جب کہ الیکشن کمیشن کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا تھا کہ اگر گواہ کیس میں التواء کے لیے پیش کیے جائیں تو عدالت کے پاس انہیں مسترد کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔شہباز شریف نے کہا کہ لاڈلے کی سزا معطل ہوئی ہے ختم نہیں ہوئی۔