توقعات نہیں تو مایوسی بھی نہیں

   

پی چدمبرم

حکومت کیلئے کوئی اچھا نہیں ہورہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے خلاف ہوا چل رہی ہے ، کسان برہم ہیں، کسانوں کا احتجاج ملک کے دیگر حصوں میں بھی پھیل گیا ہے ۔ پنجاب ، ہریانہ اور اترپردیش کے کسان مرکزی حکومت اور بی جے پی کی فتنہ پروری سے بہت زیادہ مجروح ہوئے ہیں۔ دوسری طرف چین نے سر ابھارا ہے اور اس کی فورس نے جس ہندوستانی علاقہ پر قبضہ کیا تھا وہ اسے واپس کرنے سے انکار کرچکا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ سالانہ بجٹ بہت ہی سنگین حالات میں پیش کیا جارہا ہے اور یہ کم آمدنی اور بہت زیادہ طلب کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے۔ اکثر حلیف جماعتوں نے این ڈی اے کا ساتھ چھوڑ دیا ہے جبکہ اتحادی جماعتیں (وائی ایس آر سی پی، ٹی آر ایس ، بی جے ڈی ، بی ایس پی) نے اہم مسئلوں پر خود کو حکومت سے دور کرلیا ہے جبکہ سرکاری بنچوں اور اپوزیشن کے درمیان فاصلے مکمل ہوگئے ہیں۔

صدر کے خطبہ میں کوئی نئی بات یا نیا ایجنڈہ نہیں ہے۔ ان کے خطاب سے اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ حکومت ملک کا مستقبل پیچھے کے آئینے سے دیکھ رہی ہے اور دوسرا موقع بجٹ برائے سال 2021-22 ہے۔
مجھے امید ہے کہ موجودہ بجٹ کی حالت پچھلے بجٹ (بجٹ برائے سال 2020-21 ) کی طرح نہیں ہوگی ۔ ویسے بھی بجٹ پیش کئے جانے سے کئی ہفتے قبل ہی اس کے بارے میں انکشافات منظر عام پر آتے رہتے ہیں ۔ وزیر فینانس خود نہ دینے والے کئی بیانات دی چکی ہیں ۔ اگر دیکھا جائے تو کورونا وائرس کی عالمی وباء کے بغیر ہماری معیشت کے روبہ زوال ہونے کا سلسلہ جاری رہتا اور معیشت کا لڑکھڑا نا۔ 2018-19 ء کے پہلے سہ ماہی سے شروع ہوچکا تھا اور 31 مارچ 2020 ء تک مسلسل 8 سہ ماہیوں تک جاری رہا اور پھر کورونا وائرس کی عالمی وباء نے رہی سہی کسر پوری کردی اور وباء کے باعث ہندوستانی معیشت زوال کی گہری کھائی میں گر گئی منفی 23-9 فیصد 2020-21 کے پہلے سہ ماہی میں اور دوسرے سہ ماہی میں منفی 7.5 فیصد رہی جہاں تک ہماری وزیر فینانس محترمہ نرملا سیتارامن کا سوال ہے انہیں 40 برسوں کے دوران پہلے معاشی انحطاط لانے کا اعزاز حاصل ہوا ہے ۔ میں یہ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ بحیثیت وزیر فینانس ان کے دور میں ہی معیشت کو شدید جھٹکہ لگا۔
اب یہ کہا جارہا ہے کہ معاشی سال 2020-21 ء منفی نمو کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچے گا اور روینیو کے جو احداف مقرر کئے گئے تھے وہ اپنے نشانہ سے بہت پیچھے رہیں گے ۔ Capital Investment یا سرمایہ کاری شدید متاثر ہوگی اور روینیو خسارہ 5 فیصد پر بند ہوگا اور حقیقی مالی خسارہ 7 فیصد کے نشانہ کو عبور کرے گا ۔ بجٹ 2020-21 اپنے آ غاز میں ایک آفت تھا اور مالی سال کے اواخر میں یہ بہت بڑی تباہی و بربادی میں تبدیل ہوگا۔
اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو ہماری معیشت انحطاط کا شکار ہے اور ملک میں بیروزگاری کی موجودہ شرح نقطہ عروج پر پہنچ چکی ہے (دیہی سطح پر 9.2 فیصد اور شہری سطح پر 8.9 فیصد) کسان دشمنی قوانین اور زرعی پیداوار کی ناقص درآمد و برآمد پال یسیوں نے زرعی ترقی پر قدغن لگادیا اور وہ سست روی کا شکار ہوگئی ۔ حد تو یہ ہے کہ حکومت کی ناقص معاشی پالیسیوں کے نتیجہ میں صنعتی شعبہ ایک کثیر سرمایہ کو راغب کرنے میں ناکام رہا ۔

درآمدات و برآمدات بھی انحطاط کا شکار ہیں کیونکہ عجیب و غریب پالیسیاں اختیار کر رہی ہے ۔ اس کی ایک اور وجہ عالمی سطح پر معیشت کا لڑکھرانا بھی ہے جبکہ معاشی لحاظ سے انسانوں میں تفاوت یا خلیج بڑھتی ہی جارہی ہے ۔ غریب اور امیر کے درمیان فرق بہت بڑھ گیا ہے اور ہمارے ملک کا یہ حال ہے کہ اسے دنیا میں سب سے زیادہ غریب لوگوں کے معاملہ میں انعام دیا جاسکتا ہے ۔ ہم نے غریبوں کی تعداد کے معاملہ میں نائجیریا جیسے ملک کو بھی پیچھے چھوڑدیا ہے ۔ اس سب کا کریڈٹ مودی حکومت کو جاتا ہے جو پچھلے سات برسوں سے اقتدار پر فائز ہے۔
K شکل کی بحالی
اب دیکھا جائے تو ہماری معیشت کا V شکل کی بحالی سے دوچار نہیں ہوگی ، وہ شکل کی بحالی کی امید بے کار اور اس کی پیشن گوئی کرنا بالکل غلط ہے۔ عالمی مالیاتی ادارہ کے اعلیٰ ماہر معا شیات ڈاکٹر گیتا گوپی ناتھ کے مطابق ہماری معیشت کی جو حالت ماقبل کووڈ۔19 کے تھی وہ صرف اور صرف 2025 میں بحال ہوگی اور یہ بحالی V شکل کی نہیں بلکہ K شکل کی ہوگی ۔
چند لوگ ہی اپنی اپنی آمدنی یا دولت میں اضافہ دیکھیں گے جبکہ اکثر لوگوں کو معاشی طور پر بہت زیادہ نقصان ہوگا جیسا کہ کورونا وائرس کی عالمی وباء سے متاثر مالی سال 2020-21 میں ہوا تھا ، یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ آکسفام کے ایک جائزہ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے ۔

میں بجٹ سے کوئی زیادہ اچھی توقع نہیں رکھتا ۔ ویسے بھی صحت عامہ کی بنیادی سہولتوں کے شعبوں اور دفاعی مصارف میں اضافہ کی مانگ عالمی سطح پر ایک عام رجحان ہے اور میں اس مطالبہ کی بھرپور تائید و حمایت کرتا ہوں۔ وزیر فینانس ہوسکتا ہے کہ اس مرتبہ ان دونوں شعبوں کے لئے زیادہ سے زیادہ فنڈس فراہم کرسکتی ہیں ۔ اس کے باوجود میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ مجھے اس حکومت سے کوئی اچھی توقع نہیں ہے کیونکہ یہ حکومت اچھے مشوروں اور تجاویز کو بہت کم ہی قبول کرتی ہے ۔ ان حالات میں مجھے حکومت اور اس کے چلانے والوں کے رویہ میں کوئی تبدیلی نہیں دکھائی دیتی۔ اگر مجھ سے بجٹ کے بارے میں میری خواہش اور ترجیحات دریافت کی جائیں تو میں اس فہرست میں کم از کم ایسی دس خواہشات درج کروں گا جو معیشت کو مضبوط و مستحکم بنانے میں معاون ثابت ہوگی ۔ میری سب سے بڑی خواہش ہے کہ معیشت کو سہارا دینے کیلئے ایک بڑے معاشی پیکیج کو متعارف کروانے سے متعلق ہے۔ اس طرح میں یہی چاہوں گا کہ موجودہ حالات میں بہتری کیلئے خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے کم از کم 30 فیصد خاندانوں کو 6 ماہ کیلئے رقومات راست ان کے اکاؤنٹس میں منتقل کی جائیں۔

اسی طرح MSMES منصوبوں کو بچانے کے اقدامات کئے جائیں تاکہ پیداواری سطح پر سست روی کا رجحان ختم کیا جاسکا اور جو ملازمتیں جاچکی تھیں ان کا درمیانی احیاء عمل میں آسکے۔ اس طرح میں چاہتا ہوں کہ محاصل کی شرحوں خاص کر جی ایس ٹی شرحوں میں کمی کی جائے ، ساتھ ہی پٹرول اور ڈیزل پر عائد مختلف ٹیکسوں کو ختم کیا جائے ۔ دوسری جانب حکومت کے سرمایہ مصارف میں اضافہ کیا جائے ۔ جاریہ سال میں مرکزی و ریاستی حکومتوں کے سرمایہ مصارف خطرناک حد تک گھٹتے جارہے ہیں۔ عوامی شعبہ کے بینکوں کو بچانے کیلئے ہنگامی سطح پر اقدامات کئے جائیں اور قرض فراہم کرنے بینکوں کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔ ٹیکس سے متعلق قوانین میں ترمیم کی جائے اور شہریوں میں حکومت کی ٹیکس دہشت گردی کا جو تصور ہے ، اسے ختم کیا جائے ۔ چونکہ مجھے اس بجٹ سے کوئی توقعات نہیں ہیں اس لئے یکم فروری کو میں مایوس ہونے کیلئے تیار ہوں۔