اسلام آباد : پاکستان میں عیسائی اقلیت کے خلاف حالیہ ہجومی تشدد کے بعد توہین مذہب کے قوانین پر سوالیہ نشان اٹھایا جا رہا ہے۔ لیکن کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ ذاتی عناد اور انتقام کے رجحان کا ہے۔ پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین ایک مرتبہ پھر زیر بحث ہیں۔ گزشتہ ہفتہ ایک مشتعل مسلم ہجوم نے پنجاب کے مشرقی علاقہ جڑانوالہ میں دو عیسائیوں پر قرآن کی بے حرمتی کا الزام لگانے کے بعد متعدد گرجا گھروں اور مسیحیوں کی رہائشوں کو نذر آتش کر دیا تھا۔ پاکستان میں توہین مذہب کے الزام کے بعد اکثر لوگ جمع ہو جاتے ہیں اور پھر تشدد کا سلسلہ شروع یو جاتا ہے۔ ماضی میں توہین مذہب ہی کے الزامات کے تحت ہجوم متعدد واقعات میں ملزمان کو بے دردی سے قتل کر چکا ہے۔ ان قوانین میں پیغمبر اسلام کے بارے میں توہین آمیز تبصرے کرنے والوں کے لیے موت یا عمر قید کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ برطانوی نوآبادیاتی دور میں بنائے جانے والے ان قوانین کا استعمال اکثر غلط ہوتا ہے۔ ذاتی دشمنی یا عناد کا بدلہ لینے کے لیے کمزور اقلیتی گروہوں، یہاں تک کہ خود مسلمانوں کو بھی اسی قانون کے تحت نشانہ بنایا جاتا ہے۔