محمد مصطفی علی سروری
لتا کیری کی عمر 68برس ہوچکی ہے۔ اس بزرگ خاتون کو اس بات کا بالکل بھی علم نہیں تھا کہ دوڑنا بھی کھیل کود کا حصہ ہے۔ اور کھیل کود کے مقابلوں میں حصہ لے کر پیسے کمائے جاسکتے ہیں۔ جب لتا کسرے کا شوہر بیمار پڑگیا اور ڈاکٹروں نے اس کے بیمار شوہر کو علاج کی خاطر MRI اسکان کروانے کو کہا تو لتا کیری کو احساس ہوا کہ اس کے ہاں تو MRI کروانے کے لیے پیسے ہی نہیں ہیں۔
قارئین لتا کیری کون ہے اور ہم نے آج اس خاتون کے متعلق لکھنا کیوں ضروری سمجھا تو جان لیجیے کہ یہ خاتون کون ہے؟ لتا کیری کا تعلق مہاراشٹرا کے بلدھانہ ضلع سے ہے۔ وہ آج کل اپنے خاندان کے ساتھ بارہ متی تعلقہ کے ایک گائوں میں رہتی ہے۔ لتا کی تین بیٹیاں تھیں۔ لتا کا شوہر سیکوریٹی گارڈ کا کام کرتا تھا۔ ان لوگوں نے اپنی زندگی میں جتنا بھی کمایا وہ اپنی ان تین لڑکیوں کی شادی پر خرچ کرڈالا۔ لتا کیری کا ایک لڑکا بھی ہے جو محنت مزدوری کرتا ہے۔ جب لتا کا شوہر بیمار پڑگیا اور ڈاکٹروں نے اس کے علاج کے دوران اس کا MRI اسکان کرنے کو کہا تو لتا کو پتہ چلا کہ اس کے پاس تو اتنے پیسے نہیں ہیں۔ یہ سال 2014ء کی بات ہے۔ مہاراشٹرا کے آہنی قائد شرد پوار کی سالگرہ کے موقع پر ان کے چاہنے والوں کی طرف سے میراتھن ریس کے مقابلے کا اعلان کیا گیا تھا۔ ریس میں دوڑ لگانے کے اس مقابلے میں حصہ لینے والوں کو تین کیلو میٹر کا فاصلہ طئے کرنا تھا۔ اس ریس میں انعام کے طور پر 5ہزار روپیوں کا نقد انعام رکھا گیا تھا۔ لتا کیری نے دوڑ کے اس مقابلے میں شرکت کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اگرچہ لتا کیری کو اپنے شوہر کے علاج کے لیے 15 ہزار روپیوں کی ضرورت تھی۔ لتا نے بھی تو میراتھن کے اس مقابلے کو جیت کر 5 ہزار روپئے حاصل کرنے کا ارادہ کیا۔ مقابلے میں بہت سارے لوگ شریک تھے۔ ٹریک اور سوٹس کے ساتھ جوتے پہنے لوگوں کے ساتھ لتا کیری بھی اپنی روایاتی ساڑی اور ننگے پائوں کے ساتھ دوڑ میں حصہ لینے کھڑی تھی۔
جب دوڑ کا آغاز ہوا تو لتا کیری جس کی عمر اس وقت 62 برس تھی دوڑنا شروع کیا۔ ساڑی کے پلو کو سر کے بالوں پر ڈھانک کر کمر کے پاس اٹکا لیا اور نیچے سے ساڑی کو تھوڑا اوپر کرلیا تاکہ دوڑتے وقت یہ پائوں میں نہ اٹک جائے۔ پائوں سے چپل کو بھی اتار کر بازو رکھ دیا تاکہ یہ ٹوٹ نہ جائے۔
تین کیلو میٹر طویل میراتھن کی یہ ریس جب ختم ہوئی تو سب سے پہلے Finish لائن کو پار کر کے لتا کیری نے یہ ریس جیت لی۔ سب لوگ انعام کے لیے مقابلہ کر رہے تھے اور لتا چاہتی تھی کہ اپنے شوہر کی جان بچاسکے۔ جب لتا نے یہ میراتھن ریس جیت لی تو مہاراشٹرا سے شائع ہونے والے مراٹھی اخبار
Divya Marathi
نے لتا کیری کی جیت کی خبر کو اور اس کی پریشانی کی اطلاع کو جلی حروف کے ساتھ نمایاں طور پر شائع کیا۔ اس طرح کے نمایاں کوریج کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ لتا کیری کی مدد کے لیے آگے آئے اور لتا کیری کے شوہر کے علاج کے لیے درکار پیسے جمع ہوگئے۔ لتا کیری بنیادی طور پر کھیتوں میں مزدوری کا کام کرتی ہے۔ (بحوالہ دینک بھاسکر اخبار ۔ 7؍ جون 2017)
قارئین یہ تو تین برس پہلے کی خبر ہے لیکن 10؍ فروری 2020 کو بی بی سی ڈاٹ کام نے
BBC’s Indian Sportswoman
کے بیانر تلے لتا کیری کا انٹرویو اور ان کی کہانی پر ایک فیچر پیش کیا۔ حیدرآباد کے ایک فلم ڈائرکٹر نوین کمار نے لتا کیری کی جدوجہد سے پُر زندگی پر ایک فلم بنانے کا اعلان کیا۔ لتا کیسری کے شوہر کا نام بھگوان کسرے ہے۔ بی بی سی لندن سے بات کرتے ہوئے بھگوان کسرے نے کہا کہ میری بیماری کی وجہ سے میری بیوی کو پریشانیاں اٹھانی پڑیں۔ وہ بھی اس عمر میں لیکن مجھے اپنی بیوی پر فخر ہے کہ اس نے میری جان بچالی۔
قارئین لتا کسرے کی اس جدو جہد بھری زندگی کی کہانی کو اپنے کالم کا موضوع بنانے کا ایک مقصد تھا۔ وہ یہ کہ ہمارے سماج کی تصویر کو پیش کریں جہاں پر خواتین اپنی زندگی کی آخری سانس تک اپنے گھر والوں کے لیے جدو جہد کرتی نظر آرہی ہیں۔ ذرا سونچیے کہ (62) سال کی عمر میں دوڑ کے کسی مقابلے میں حصہ لینا اور پھر اس مقابلے میں جیتنے کے لیے اپنی جی جان لگادینا کوئی آسان کام نہیں ہے۔کیا اپنی زندگی سے اور زندگی کے مسائل سے لڑنے والی لتا کسرے کوئی اکلوتی خاتون ہیں۔ جی نہیں ہمارے ملک کی ہر دوسری خاتون ایک جنگ لڑ رہی ہے۔ کیا ہم نے اپنے اطراف و اکناف کے ان خواتین کی جدو جہد سے بھری زندگی کو پڑھنے کی کوشش کی؟ آیئے اب میں اپنے قارئین کو ایک اور خاتون کی جدوجہد بھری زندگی کی سچی کہانی سے واقف کرواتا ہوں۔
یہ 1990ء کی بات تھی جب 19سال کی اوما پریمن کی شادی پریمن تھائیکاڈ نام کے ایک 45 سالہ شخص سے کرادی گئی۔ ہر نوجوان لڑکی کی طرح اوما نے بھی اپنی شادی کے متعلق بہت ساری باتیں سونچ رکھی تھی کہ ایسا بھی ہوگا اور ویسا بھی ہوگا لیکن عملی طور پر کیا ہوا۔ بی بی سی کے نمائندے وکاس پانڈے کی 12؍ فروری 2020 کی رپورٹ کے مطابق اوما اپنے ہونے والے شوہر سے پہلے کبھی نہیں ملی تھی۔ اوما کی ماں نے اوما کو بتلایا کہ اب یہ شخص تمہارا شوہر ہے۔ کوئی تقریب نہیں، کوئی میوزک نہیں بلکہ اوما کے مطابق اس کی ماں نے اس سے کہہ دیا کہ اب وہ پریمن تھائیکاڈ کی ملکیت ہے۔ وہ تو پریمن تھائیکاڈ نے خود اوما کو بتلایا کہ اب وہ اس کی بیوی ہے۔ بس شادی ہوگئی۔ اوما پریمن کو اس کا شوہر اپنے گھر لے گیا اور وہاں اسے چھوڑ کر غائب ہوگیا۔ شادی کی پہلی رات اوما اکیلی در و دیوار کو تکتی رہی۔ اگلی صبح اوما کا شوہر گھر آیا اور اس کو لے کر سیدھے شراب خانہ کا رخ کیا۔ وہ شراب پیتا رہا اور اوما خاموشی سے بیٹھی رہی۔ اوما پریشان تھی کہ یہ کیسی شادی ہے تب اس کے شوہر نے اس کو بتلایا کہ وہ اس کی دوسری بیوی ہے۔ لیکن جلد ہی اوما کو معلوم ہوگیا کہ اوما اپنے شوہر کی دوسری نہیں بلکہ چوتھی بیوی ہے اور اوما کے شوہر کو ٹی بی کا مرض لاحق ہے اور اس کی تیمارداری کرنا ہی اس کی ذمہ داری ہے۔
اوما کون ہے اس کے متعلق بی بی سی کے نمائندے نے تفصیلات بتلائی ہیں کہ وہ تاملناڈو کے کوئمبتور کی رہنے والی ہے۔ جب وہ چھوٹی تھی تو اس نے بھی اپنے والد کی طرح ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھا تھا۔ اوما کے والد نے ایم بی بی ایس میں داخلہ تو لیا تھا لیکن ایک سال کے بعد ہی ان کو تعلیم چھوڑ کر کھیتوں میں کام کرنے بلا لیا گیا تھا۔ لیکن ایک سال میں ٹی کے بالا کرشنن نے جتنا بھی سیکھا تھا وہ اس کی پریکٹس کرتا تھا۔ بخار کی دوائی دینا۔ زخموں کی مرہم پٹی کرنا۔ اس کو اچھے سے آگیا تھا۔ اپنے والد کے اس کام کو دیکھنے کے بعد اوما نے بھی ڈاکٹر بننے کا ارادہ کرلیا تھا۔
اوما کی ماں کو اپنے شوہر کا یہ کام بالکل پسند نہ تھا۔ پھر ایک دن اوما کی ماں نے اس کو پٹاخے خرید کر لانے پیسے دیئے اوما جب تک پٹاخے خرید کر گھر واپس لوٹی تو تب تک اس کی ماں کہیں دور جاچکی تھی۔ اوما نے بی بی سی کو بتلایا کہ اس کو بعد میں معلوم ہوا کہ اس کی ماں دراصل ایک دوسرے شخص سے پیار کرتی تھی اور گھر سے بھاگ کر وہ اسی عاشق کے ساتھ ہی رہ رہی تھی۔
اوما آٹھ برس کی تھی اور گھر میں اس کا چھوٹا بھائی جس کی عمر صرف تین سال تھی رہتا تھا جس کی نگہداشت اب اوما کو ہی کرنی تھی۔ اوما کا باپ کھانا بناتا تھا۔ وہ ایسا کھانا ہوتا تھا کہ کھائے ہی نہیں جاتا۔ اب اوما نے خود کھانا بنانا سیکھا۔ وہ پانچ بجے صبح اٹھ جاتی۔ ناشتہ کے ساتھ دوپہر کا کھانا بناتی۔ پھر اسکول کو چلی جاتی۔ شام میں گھر واپس آکر رات کا کھانا پکانا بھی اس کا معمول بن گیا تھا۔
اوما کو ماں کی یاد ہمیشہ ستاتی تھی لیکن وہ کبھی واپس نہیں لوٹی۔ 8 برس کی اوما جب 17 برس کی ہوگئی تو اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اوما کوئمبتور کی مندر کو درشن کے لیے گئی۔ وہاں پر کسی شخص نے اوما کو اس کی ماں کے بارے میں بتلایا۔ اوما نے اپنا پتہ اس شخص کو دے دیا۔ پھر ایک دن اوما کو ایک خط ملا جو اس کی ماں نے لکھا تھا۔ اوما خوشی خوشی ماں سے ملنے گئی۔ لیکن خود اوما کی ماں خوش نہیں تھی۔ ہر روز اس کے گھر پر طرح طرح کے لوگ آتے اور اس کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آتے اور قرضہ واپس کرنے کا مطالبہ کرتے۔
اوما کی ماں نے جس شخص سے دوسری کی تھی وہ لوگوں سے بہت سارا روپیہ قرض لے کر بھاگ گیا تھا اور اوما کی ماں قرض داروں کا قرضہ واپس کرنے کے بجائے اوما کو ایک قرض دار کے حوالے کردینے کا ارادہ ظاہر کیا۔ اوما نے نوکری کر کے ماں کا قرضہ چکانے پر رضا مندی ظاہر کی مگر اوما کو مناسب نوکری نہیں ملی۔ تب اوما واپس اپنے باپ کے گھر لوٹ گئی لیکن یہ کیا؟ اوما کے باپ نے بھی یہ معلوم ہونے کے بعد اپنے گھر کے دروازے اوما پر بند کردیئے کہ وہ اپنی ماں سے ملنے گئی اور اس سے تعلقات رکھتی ہے۔ باپ کا دروازہ بند ہونے کے بعد مرتی کیا نہ کرتی اوما دوبارہ اپنی ماں کے پاس لوٹی جہاں پر اوما کی ماں نے اس کو پریمن تھائیکاڈ نامی شخص کے حوالہ کردیا۔ جو اس کو اپنی بیوی بناکر تیمارداری کے لیے اپنے ساتھ لے گیا۔ سات سال ٹی بی کے مرض میں مبتلا رہ کر اوما کا شوہر مرگیا اور اوما پھر سے دنیا میں اکیلی ہوگئی۔ اکیلی اوما نے اپنی زندگی کی دوبارہ شروعات کی اور لوگوں کی مدد کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ شوہر کے علاج کے لیے دواخانہ، دواخانہ پھرنے کا تجربہ کام آیا۔ لوگ اوما کے پاس آتے تو وہ ان کو مشورہ دیتی۔ یوں اوما نے
Santhi Medical Information Centre
شروع کیا۔ اس کے علاوہ اوما نے آج (20) ڈائیلاسس سنٹرس کھول رکھے ہیں جہاں امیر لوگوں کے عطیات سے غریبوں کا مفت علاج ہو رہا ہے۔ خود اوما نے اپنے ایک گردہ کا عطیہ ایک یتیم بچے کو دے دیا اور دوسروں کو ترغیب دیتی ہے کہ وہ بھی اپنے گردے کا ضرورت مند مریضوں کا عطیہ کریں۔ اوما نے بی بی سی کو بتلایا کہ لوگ دنیا کو بدلنا چاہتے ہیں اور خود تبدیلی کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے میں نے اپنے نقطہ نظر کو بدلا اور اپنا ایک گردہ ضرورت مند کو دے دیا۔ بدلے میں مجھے ایک بھائی مل گیا۔ (بحوالہ
“An unhappy marriage that has saved thousands of Lives”
۔ وکاس پانڈے کی رپورٹ ۔ بتاریخ 12؍ فروری 2020)
قارئین آج شاہین باغ ہو یا ملک کا کوئی اور مقام متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مسلم خواتین احتجاجیوں کی فہرست میں ہر اول دستہ کا رول نبھارہی ہیں۔ یہ تو پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ ساری دنیا مسلم خواتین کی اس جدو جہد کو دیکھ بھی رہی ہے اور تسلیم کر رہی ہے۔ ورنہ مسلمانوں میں بھی ہر دوسری خاتون اپنی عملی زندگی میں ایک نئی جنگ کا سامنا کر رہی ہے۔ کیا کوئی ہے جو اس جنگ میں مسلم عورتوں کا ساتھ دے؟ اور زندگی کی حقیقت کو دیکھے۔
بقول شاعر
تو کہانی ہی کے پردے میں بھلی لگتی ہے
زندگی تیری حقیقت نہیں دیکھی جاتی
اللہ تعالیٰ ہم سبھی کو نیک توفیق عطا فرمائے اور آسانیاں بانٹنے والا بنائے۔(آمین)
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
[email protected]