تڑپ تڑپ کر مرجانا آہ … بھی نہ کرنا

   

رویش کمار
آکسیجن کی سپلائی کم ہونے سے کتنے لوگ اسپتالوں میں تڑپ کر مرگئے، کوئی جیل نہیں گیا، دہلی کے بھی 2 اسپتالوں میں 37 لوگ اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے۔ ’’ٹائمس آف انڈیا‘‘ کی رپورٹ کے مطابق گوا کے گوا میڈیکل کالج میں آکسیجن کی سپلائی میں رکاوٹ سے 80 سے زائد مریض فوت ہوگئے۔ اس معاملے میں بھی کوئی جیل نہیں گیا، لیکن دہلی میں پوسٹر لگانے کے جرم میں تاحال 25 لوگ جیلوں میں ٹھونس دیئے گئے۔ دہلی پولیس نے 25 سے زائد ایف آئی آر درج کی ہیں۔ ان لوگوں کو گرفتار کرلیا گیا جن کی ایک سال کے دوران کمائی کم ہوگئی ہے۔ جن کی یومیہ اُجرت بند ہوگئی ہے جنہیں محسوس ہوا کہ پوسٹر چسپاں کرنے سے کچھ پیسے مل جائیں گے۔ ’’انڈین ایکسپریس‘‘ میں گرفتار ہوئے لوگوں کی تفصیلات شائع ہوئی ہیں۔ ’’مودی جی! ہمارے بچوں کی ویکسین بیرون ملک کیوں بھیج دیئے‘‘ اتنا ہی لکھا ہے اُن پوسٹرس پر۔ لیکن سرکاری املاک کو بگاڑنے کے الزام میں مقدمہ درج ہوگیا اور گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔ ایسی خبروں کو دیکھ کر آپ تھوڑا اور ڈر گئے ہوں گے کہ لوگ بھلے تڑپ تڑپ کر مرجائیں، آہ کرنا نہیں ہے، چپ رہنا ہے، آپ ڈرتے آرہے تھے، آپ ڈرتے رہیں گے، آپ کو ڈرنے سے ایک فائدہ ہوگا، جیلیں نہیں بھریں گی، اتنے سارے لوگوں کو جیل میں بھرنا آسان نہیں ہے، آپ ڈر سے گھر میں دَبک کر حکومت کی مدد کررہے ہیں۔ اپنے گھر کو ہی جیل تصور کیجئے، کیا آپ نے میری بات سمجھی ہے ؟ سیاسی جماعتوں میں عام آدمی پارٹی نے سب سے پہلے بیرون ملک ویکسین بھیجنے پر سوال اُٹھایا تھا اور وزیراعظم نریندر مودی کو مکتوب تک روانہ کیا۔ دوسری جماعتیں بھی یہ مسئلہ اُٹھانے لگیں لیکن گرفتاری کی مخالفت میں کانگریس سب سے آگے نکل گئی۔ اتوار کو اس گرفتاری کے بعد راہول گاندھی، پرینکا گاندھی، کانگریس ترجمان پون کھیڑا، کانگریس قائد جئے رام رمیش نے اس پوسٹر کو ٹوئٹ کیا اور کہا کہ ہمیں بھی گرفتار کرو، کئی قائدین نے تو اس پوسٹر کو اپنی پرو فائیل پکچر میں بھی رکھنا ہے۔ ساتھ ہی کئی عام لوگوں نے بھی ٹوئٹ کیا ہے کہ ہمیں بھی گرفتار کرو، ابھی تک ان میں سے کسی کی گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔ اتوار کی شام کو عام آدمی پارٹی نے ایک بیان جاری کیا اور کہا کہ ایسے اور پوسٹرس چھپوائیں گے۔ کیا واقعی میں کانگریس اور عام آدمی پارٹی دہلی میں ایسے پوسٹر چھاپ کر چسپاں کرنے کی جرأت کریں گی ۔ مودی جی نے ہمارے بچوں کی ویکسین بیرونی ملک کیوں بھیج دی۔ اتنی سی بات پوسٹر پر لکھنے سے جیل ہوگئی۔ 27 مارچ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہندوستان کے نمائندہ ہی کہہ رہے ہیں کہ دیش کے لوگوں کو جتنے ٹیکے نہیں دیئے، اس سے کہیں زیادہ بیرونی ملکوں کے لوگوں کیلئے دے دیئے۔ یہی سوال تو پوسٹر چسپاں کرانے والوں نے پوچھا ہے کہ کیوں دیا۔ 14 مارچ کے ’’پرائم ٹائم‘‘ میںہم نے اس بارے میں تفصیل سے بتایا ہے۔ یو ٹیوب پر آپ دیکھ سکتے ہیں۔ ویسے بھی اس میں شاباشی واہ واہی لوٹنے والی کوئی بات تو نہیں تھی کہ ہم نے اپنے لوگوں کیلئے کم اور دوسرے ملکوں کے لوگوں کیلئے زیادہ ٹیکے بھیجے ہیں۔

بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ سمبھاجت چھترپتی کے سوالوں کے جواب میں 23 مارچ کو وزیر صحت راجیہ سبھا میں تحریری جواب دیتے ہیں اور حکومت کی پالیسی بتاتے ہیں۔ آپ بھی غور سے پڑھیں۔ اس سے پتہ چلے گا کہ حکومت ویکسین بیرون ملک کیوں برآمد کررہی تھی یا مدد کررہی تھی۔ وزیر موصوف کہتے ہیں کہ کسی بھی مقام پر بیماریوں کے وباء کی شکل اختیار کرنے پر ساری دنیا کو ایک اکائی کے طور پر مانتے ہوئے اس کی روک تھام کرنی ہوتی ہے اور سنگین صورتحال میں اور ملک کو درپیش حالات میں کام کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس کے ساتھ ساتھ کووڈ۔ 19 ویکسین کی تیاری جس سے ٹیکہ کی تیاری میں عالمی سطح پر سہولت ہوگی اور اس کے ساتھ ساتھ دنیا کے تمام ملکوں میں زیادہ جوکھم والی آبادی کو ایک ساتھ محفوظ کرنے کیلئے بھی اہم ہے اس سے کووڈ۔ 19 کی شدت کے تسلسل کو توڑا جاسکتا ہے اور کووڈ۔ 19 کے کیسیس کو دوسرے ملکوں کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے پڑوسی ملکوں سے آنے کے امکانات کو روکا جاسکتا ہے۔ وزیر صحت ٹیکے کو لے کر کئے گئے سوال کے تحریری جواب میں کہہ رہے ہیں کہ کسی ملک یا ریاست کے نظریہ سے پہ کام نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا کی آبادی 7 ارب ہے۔ مودی حکومت ایک کروڑ ٹیکہ لے کر کورونا کا عالمی تسلسل توڑنے لگی تھی۔ یہ تو پتہ ہی نہیں تھا۔ یہ تو ویسے ہی ہوا کہ کوئی سمندر میں کیل ٹھونکنے نکلا ہو۔ دنیا کے بڑے ملک اپنی آبادی سے کہیں زیادہ ٹیکہ خرید رہے تھے۔ حکومت ہند 30 کروڑ کیلئے بھی ٹیکے کا انتظام نہیں کرسکی ہے اور ایک کروڑ ٹیکہ لے کر عالمی تسلسل توڑنے کے نظریہ سے کام کررہی تھی۔ یہی نہیں وزیر موصوف کہتے ہیں کہ کووڈ۔19 کے معاملات کو دوسرے ملکوں کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے پڑوسی ملکوں سے آنے کے امکانات کو ختم کیا جاسکے۔ یعنی دوسرے ملک سے وائرس ہندوستان نہ آئے۔ اس لئے دوسرے ملکوں کو ٹیکہ دیا جارہا تھا۔ اس حساب سے مملکتی وزیر صحت کو سارا ٹیکہ لادکر لندن چلے جانا چاہئے تھا تاکہ لندن سے کووڈ کا وائرس ہندوستان نہ آسکے۔ آپ سنجیدہ ہیں نا تو پھر ’’پرائم ٹائم‘‘ دیکھتے ہوئے کبھی ہنسئے مت یہ ہوتی ہے پالیسی اور پروگرام، ہندوستان میں کورونا کے تسلسل کو توڑنے کی بجائے ہم دوسرے ملکوں میں کورونا کے تسلسل کو توڑ رہے تھے۔ ماہ مئی میں سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا کے آدر پونا والا ’’فائنانشیل ٹائمس‘‘ سے کہتے ہیں کہ انہیںکوئی آرڈر ہی نہیں ملا۔ ہم نے سوچا ہی نہیں کہ اس سال میں ایک ارب سے زیادہ Dose تیار کرنے ہوں گے۔ سب کو لگا کر ہندوستان کووڈ۔ 19 کو ہرا دیا ہے۔ کیا پونا والا صحیح کہہ رہے ہیں کہ کوئی آرڈر نہیں تھا؟ اچھی بات ہے کہ اس سچ کو سامنے لانے کے الزام میں پولیس نے پونا والا کو گرفتار نہیں کیا، لیکن دہلی میں پوسٹر چسپاں کرنے والے جیل چلے گئے تو ہم عالمی تسلسل توڑنے کیلئے ٹیکہ باہر بھیج رہے تھے لیکن وائرس کو اپنے یہاں سمجھنے کیلئے جو سسٹم ہے اُسے توڑ رہے تھے۔
ڈاکٹر شاہد جمیل 5 مئی تک انڈین سارس Covid-2 جینومک کانسورشیا کے سربراہ تھے۔ اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا۔ یہ کمیٹی ڈسمبر میں تشکیل دی گئی تھی۔ رائٹرس میں 3 مئی کو شائع خبر کے مطابق اس کمیٹی نے ہندوستان میں پھیلے وائرس کے بارے میں انتباہ مارچ کے پہلے ہفتہ میں ہی حکومت کے اعلیٰ کے عہدیداروں کو دے دیا تھا۔ اس انتباہ کی تحریری نقل موجودگی لیکن ملک کے عوام کو کیسے ملے گی؟ آپ کو یاد ہوگا کہ مارچ کے پہلے ہفتے میں مرکزی وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن نے کہا تھا کہ ہندوستان میں کورونا کی عالمی وباء ختم ہونے کو ہے تو کیا وزیر صحت کو جینوم کمپنی کا انتباہ نہیں پہنچا کیا لوگوں کی زندگیاں اس قدر سستی ہی گئیں لیکن ان سب سوالات کا کوئی ٹھوس جواب نہ آئے یا بہرحال ڈاکٹر شاہد جمیل نے اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا ہے۔

’’دینک بھاسکر‘‘ نے خبر شائع کی تھی کہ گنگا کنارے 27 اضلاع میں 2000 نعشیں بہتے ہوئے یا ندی کنارے دفن پائی گئی ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار میں مرنے والوں کی تعداد پر سوالات اُٹھتے رہیں گے۔ فرق کیسے پڑتا ہے۔ دنیا بھر کی حکومتیں یہ گھپلاکررہی ہیں۔ اس لئے الگ الگ دانشور اپنے ماڈل سے دنیا بھر کے ملکوں میں مرنے والوں کی تعداد کا اندازہ لگا رہے ہیں۔ یونیورسٹی آف واشنگٹن کے ایک ادارہ انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایوالویشن کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال کورونا وباء شروع ہونے سے لے کر اس سال 13 مئی تک ہندوستان میں مرنے والوں کی تعداد 2.48,016 لاکھ ہے جبکہ ان کے ماڈل کے حساب سے اب تک ہندوستان میں 7,36,811 لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ 9 مئی کو براؤن یونیورسٹی کے ڈاکٹر اشیش جھا کے حساب سے ہندوستان میں ہر دن 25 ہزار کے قریب لوگ مر رہے ہیں۔ ’’اِکنامسٹ‘‘ جریدہ کے حساب سے ہندوستان میں اس سال 10 لاکھ لوگ مرے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار سے 270% زیادہ اموات ہوئی ہیں تو اتنی تباہی کے بعد آپ کہاں ہیں، جھوٹ کے سمندر میں جہاں سچ کا آکسیجن ہے ہی نہیں۔