ابھئے کمار
ہمارے ملک میں گزشتہ دس برسوں سے بی جے پی حکومت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور دلتوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے کسی بھی طرح اسے ملک و قوم کے لئے بہتر نہیں کہا جاسکتا یا فائدہ بخش نہیں کہا جاسکتا بلکہ مسلمانوں اور دلتوں ے ساتھ جس طرح کا رویہ اختیار کیا جارہا ہے جس طرح سے ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور مختلف بہانوں سے انہیں ستایا، ڈرایا اور دھمکایا جارہا ہے وہ کسی بھی طرح ملک کے حق میں نہیں ہے، ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف لوجہاد، لینڈ جہاد، یو پی ایس سی جہاد جیسی اصطلاحات گھڑتے ہوئے بھولے بھالے ہندوؤں کے اذہان و قلوب میں مسلمانوں کے تئیں نفرت بھری گئی۔ فرقہ پرستی کا زہر گھولا گیا۔ اس پر بھی انہیں سکون نہیں ملا تب بی جے پی کی زیر اقتدار ریاستوں میں مسلمانوں اور دلتوں کی معاشی سطح پر کمر توڑنے کے لئے ’’تھوک جہاد‘‘ جیسی اصطلاح گھڑلی گئی ہے۔ یہ کوئی تعجب یا حیرت کی بات نہیں ہیکہ یہ بی جے پی کی زیر اقتدار ریاستیں ہیں جو آر ایس ایس میں پیوست نظریہ کی پیداوار ہیں جو خود غیر دستوری یا غیر آئنی ہے۔ ایسی ریاستیں ہیں جہاں کی بی جے پی حکومتوں نے ایسے ڈھیر سارے اقدامات کئے ہیں جو تصور اور نفاذ ہر لحاظ سے امتیازی ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ بی جے پی کی زیر اقتدار کئی ریاستوں میں حالیہ عرصہ کے دوران کچھ تفصیلی رہنمایانہ خطوط متعارف کروائے گئے جن کا مقصد بعض افراد کی جانب سے کھانے یا کھانے پینے کی اشیاء میں تھوکنے کے مبینہ واقعات کا انسداد ہے۔ نئے رہنمایانہ خطوط کے ذریعہ یا ان نئے احکامات کے تحت ہوٹل مالکین اور ہوٹل میں کام کرنے والے ورکروں کا پولیس ویری فکیشن (تصدیق) لازمی ہے۔ اس کے علاوہ ہوٹلوں کے باورچی خانوں میں سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب بھی لازمی قرار دی گئی ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اتراکھنڈ کی پشکر سنگھ دھامی حکومت نے کھانے یا کھانے پینے کی اشیاء میں تھوکنے جیسے جرم پر ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کرنے کا اعلان کیا۔ یعنی اگر کوئی جان بوجھ کر کسی غریب مسلم اور دلت کاروباری (اکثر چھوٹی موٹی ہوٹلیں اور چائے خانہ مسلمانوں اور دلتوں کے ہی ہوتے ہیں) پر تعصب و جانبداری کے نتیجہ میں یا فرقہ پرستی کے زہر سے متاثر ہوکر کھانے میں تھوکنے کا الزام عائد کردے تو اس بے چارہ کو اپنے ناکردہ جرم کی پاداش میں ایک لاکھ روپے جرمانہ کے ساتھ ساتھ کئی ایک سخت سزاؤں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ایسے اقدامات سے نہ صرف دستور ہند کی دفعات (14، 15، 19، 21) کی خلاف ورزی ہوتی ہے بلکہ یہ سماجی لحاظ سے تخریبی اور امتیاز پر مبنی ہیں۔ بی جے پی کی زیر اقتدار ریاستوں میں اس طرح کے امتیازی اقدامات ؍ فیصلوں سے معاشرہ مذہبی خطوط پر تقسیم ہوگا اور لوگوں میں مذہب کی بنیاد پر ایک دوسرے کے تئیں نفرت کا جذبہ پیدا ہوگا۔ حیرت کی بات یہ ہیکہ بی جے پی کی زیر اقتدار کچھ ریاستوں میں اس بارے میں رہنمایانہ خطوط جاری کئے گئے ہیں اس کے باوجود حزب اختلاف یا اپوزیشن کے ایک بڑے حصہ نے اس کی مذمت تک نہیں کی۔ حکومت کو یہ کہہ کر تنقید کا نشانہ نہیں بنایا کہ ایسے رہنمایانہ خطوط نہ صرف غیر دستوری ہیں بلکہ اس کے پیچھے حکومتوں کی نیت اور ارادے نیک نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ اترپردیش ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے۔ رقبہ کے لحاظ سے بھی اور آبادی کے لحاظ سے بھی اور وہاں یوگی ادتیہ ناتھ کی زیر قیادت بی جے پی حکومت ہے۔ اس حکومت کی ہر میعاد میں مختلف بہانوں سے مسلمانوں کا جینا دوبھر کردیا گیا۔ اترپردیش میں دلتوں کی حالت بھی ٹھیک نہیں ہے۔ بہرحال یہاں آپ کو یہ بتانا ہے کہ یوپی کی یوگی ادتیہ ناتھ حکومت نے ایسے ہی سخت رہنمایانہ خطوط جاری کرتے ہوئے اس پر عمل آوری شروع کی جس کے فوری بعد پشکر سنگھ دھامی حکومت نے بھی یوگی کی تقلید کرتے ہوئے رہنمایانہ خطوط جاری کئے۔ یوگی اور دھامی نے جو رہنمایانہ خطوط جاری کئے اس میں باضابطہ کہا گیا کہ کھانے میں تھوک یا پیشاب ملاکر دینے جیسی حرکتوں کو روکنے کے لئے یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ اور پشکر دھامی دونوں کے اس بارے میں بیانات آر ایس ایس کے ترجمان آرگنائزر کی اشاعت مورخہ 16 اکتوبر 2024 میں شائع ہوئے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یوگی آدتیہ ناتھ نے 15 اکتوبر کو اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں مجوزہ قوانین کے بارے میں تبادلہ خیال کیا جبکہ ان رہنمایانہ خطوط کی تائید کرنے والوں کا دعویٰ ہیکہ ان کا مقصد کھانے پینے کی اشیاء میں کسی بھی مضر شئے کی ملاوٹ کا انسداد اور صارفین کی سیفٹی کو یقینی بنانا ہے لیکن ان رہنمایانہ خطوط کے بارے میں یہ تشویش بڑھ گئی ہیکہ ان اقدامات کا پہلے ہی سے حاشیہ پر لائے گئے طبقات خاص طور پر مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف بیجا استعمال کیا جائے گا۔ خود کے دوسروں سے برتر ہونے کا دعویٰ کرنے والے ہندوتوا عناصر نے دیکھتے ہی دیکھتے تھوک جہاد جیسی اصطلاح گھڑلی جس سے اندازہ ہوتا ہیکہ اس کا مقصد کچھ اور نہیں بلکہ مسلمانوں کو نشانہ بنانا ہے ان کی معیشت کو تباہ کرنا اور معاشی طور پر ان کی کمرتوڑنا ہے۔ اگر سنجیدگی سے جائزہ لیں تو جہاد اور تھوک کا کوئی تعلق نہیں ہے چونکہ یہ فرقہ پرست طاقتیں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے اور مذہبی خطوط پر عوام کو تقسیم کرنے میں مصروف ہے۔ اس لئے وہ ایک ناپاک سازش کے تحت اب اس نئی اصطلاح کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔ جہاں تک جہاد کا سوال ہے تشدد سے اس کا کسی بھی طرح کا تعلق نہیں ہے۔ بلکہ جہاد کے معنی جدوجہد کے ہیں کوئی ایسا تاریخی ریکارڈ نہیں ملتا جن میں مسلمانوں نے ایک برادری ایک کمیونٹی کی حیثیت سے ہندوؤں کے خلاف اعلان جہاد کیا ہو باالفاظ دیگر ناانصافی اور جبر کے خلاف جدوجہد ہی جہاد ہے۔