تہواروں کا بھی مسلمانوں کیخلاف استعمال

   

برندا کرت
ملک بھر میں 5 اکتوبر کو بڑے جوش و خروش سے دسہرہ منایا گیا اور دراصل یہ تہوار بدی پر نیکی کی فتح کی علامت کے طور پر اور اس کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ ملک کے مختلف مقامات پر راون کے پتلے جلائے جاتے ہیں جبکہ راکشیس راجہ مہشیا سورا پر ہندوؤں کی دیوی دُرگا کی کامیابی کا جشن مناتے ہوئے دیوی کی مورتیوں وغیرہ کا وسرجن کرتے ہیں یعنی پانی میں چھوڑ دیتے ہیں، ان تہواروں میں کروڑہا ہندوستانی شرکت کرتے ہیں اور پوجا پنڈالوں کو بڑی خوبصورتی سے سجایا جاتا ہے اور مختلف برادری کے لوگ وہاں آتے جاتے رہتے ہیں کیونکہ وہاں آرٹسٹس رام لیلا کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مختلف کرداروں کے ذریعہ اس طرح کے واقعات کو پیش کرتے ہیں اور ایسا ماضی میں ہوتا رہا ہے لیکن کیا اب بھی ایسا برقرار رہے گا؟ یا پنڈالوں کے باہر اس طرح کے بورڈس آویزاں رہیں گے کہ یہاں صرف ہندو ہی آسکتے ہیں؟ اگر ایسا ہوگا تو پھر ہندوستان میں انگریز حکمرانی کی یادیں تازہ ہوجائیں گی جب عام مقامات پر ہندوستانیوں کا داخل ہونا ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ حد تو یہ ہے کہ کولکتہ کے ایک پوجا پنڈال میں بابائے قوم مہاتما گاندھی کی اتنی توہین کی گئی، شاید کبھی ہندوستان میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ دراصل اس پنڈال میں ہندو دیوی درگا کی مورتی کے ساتھ اُس راکشیش راجہ مہشیا اسور کی مورتی بھی رکھی گئی جسے درگاہ نے قتل کیا تھا لیکن اس راکشس کی جگہ گاندھی جی کی مورتی رکھ دی گئی اور بہ آسانی محسوس کیا جاسکتا تھا کہ وہ کسی غلطی سے نہیں بلکہ شرارتاً ایسا کیا گیا ہے جس کا مقصد صرف اور صرف گاندھی جی کی توہین کرنا تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ ’’صرف ہندوؤں‘‘ سے متعلق آئیڈیا ہے۔ ان حالات میں ہندوستان کو خود اپنے آپ سے چند مشکل سوالات پوچھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے وقت اور ہمارے معاشرہ میں کیا بدی کو نیکی پر کامیابی حاصل ہوا کرتی تھی؟ ہرگز نہیں۔ ہندوستان کے عوام کام کرنے والے غریب، مزدور اور کسانوں نے تاریخی طور پر ہمیشہ نیکی کی طاقتوں کا ساتھ دیا اور بدی کی طاقتوں کو للکارا اور ان طاقتوں کے خلاف پوری قوت سے مقابلہ کیا جو ہمیشہ غلام بنانا چاہتی تھیں۔ہمیں مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی خواہاں تھیں جو انصاف کا قتل کرنے کے درپے تھیں، لیکن آج کی لڑائی کوئی معمولی لڑائی نہیں ہے۔ ہر دن نئی مثالیں منظر عام پر آرہی ہیں کہ آخر یہ سوال موجودہ حالات سے تعلق کیوں رکھتا ہے۔
حالیہ عرصہ کے دوران گربا تقاریب میں پیش آئے چند واقعات کو دیکھئے۔ گجرات میں ایک مسجد کے قریب پنڈال لگایا گیا۔ گربا کا انتظام کیا گیا اور گربا کے مقام پر پتھراؤ کے بہانہ ہندوتوا بریگیڈ کی نجی فوج نے مسلم نوجوانوں کو برقی کھمبوں سے باندھ کر ان کے جسموں پر لاٹھیاں برسائیں اور وہاں جمع ان کا حامی ہجوم سیٹیاں اور تالیاں بجاکر شوروغل برپا کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کررہا تھا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوتوا بریگیڈ ہمارے دستور کا کس قدر احترام کرتا ہے جس طرح مسلم نوجوانوں کو کھمبوں سے باندھ کر لاٹھیوں سے پیٹا گیا، مذہب کے نام پر جو ظلم و جبر کی مثال قائم کی گئی، ماضی میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ یہ انتہائی شرمناک بات ہے کہ ایک پوری کمیونٹی کو مشکلات پیدا کرنے والوں، خواتین کو ہراساں و پریشاں کرنے والوں اور لو جہادیوں کے طور پر بدنام کیا جارہا ہے اور اسی بہانے انہیں ظلم و جبر کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ان تمام حملوں میں پولیس نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ گربا پروگرامس میں شرکت کرنے والی خواتین و لڑکیوں میں سے کسی نے بھی ہراسانی اور چھیڑ چھاڑ کی کوئی شکایت نہیں کی جس سے ہندوتوا بریگیڈ کی مسلم دشمنی کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ مسلم مردوں پر ہندو خواتین کو لبھانے کا الزام دراصل ہندو خواتین کی بھی توہین ہے۔ اگر انہیں آسانی سے لبھایا جاسکتا ہے، کوئی انہیں اپنے عشق میں پھنسا سکتا ہے تو انہیں بیوقوف سمجھا جانا چاہئے۔ اس طرح کے واقعات بی جے پی زیراقتدار ریاستوں جیسے گجرات اور مدھیہ پردیش کے مرکزی مقامات پر پیش آتے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بجرنگ دل اور بعض واقعات میں وشوا ہندو پریشد کی زیرقیادت حملہ آوروں کو گرفتار کرنے کی بجائے پولیس نے الٹے متاثرین کو گرفتار کیا ہے ۔ پولیس نے ان کے خلاف دفعہ 151 کا استعمال کیا جو پولیس کوکسی کو ثبوت و شواہد کے بغیر گرفتار کرنے کا حق دیتی ہے یعنی ایک پولیس عہدیدار بناء کسی وارنٹ گرفتاری کے کسی کو بھی گرفتار کرسکتا ہے۔ ان تمام واقعات سے بخوبی پتہ چلتا ہے کہ پوری طرح غیرقانونی کارروائیوں و اقدامات کو ریاست کی تائید حاصل ہے لیکن ماضی میں گربا جیسے مذہبی فیسٹیولس میں تمام مذہبوں کے ماننے والے شرکت کیا کرتے تھے لیکن 2014ء میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد مذہبی فیسٹیولس ایسے موقعوں میں تبدیل ہوگئے۔ جب مذہبی برادریوں میں اختلافات گہرے کردیئے جاتے ہیں۔ گجرات میں جہاں سے گربا روایات کا آغاز ہوا، مسلم موسیقار اس قسم کی تقاریب سے جڑے ہوئے تھے لیکن 2015ء کے دوران احمدآباد میں ایسے واقعات پیش آئے جہاں مسلمانوں کو گربا تقاریب سے دور رکھا گیا۔ اسی طرح صورتحال اس وقت مزید ابتر ہوتی جب اسے گربا ایونٹس کی اجازت نہیں دی گئی جس میں بالی ووڈ اداکاروں کو مدعو کیا جاتا تھا اور جس کے منتظمین مسلمان ہوا کرتے تھے۔ غرض رام نومی ہو یا دوسرے مذہبی تہوار بشمول نوراتری ان تمام کو بجرنگ دل اور وی ایچ پی، مسلمانوں کے خلاف استعمال کررہی ہے۔