غفلت، خوابِ غفلت، پہلوتہی !!!
ڈاکٹر سراج الرحمن
امت مسلمہ کونازک اور ناگہانی حالات درپیش ہیں ، کئی مسائل کا سامنا ہے جس میںاہم مسئلہ جو درپیش ہے وہ ہے اولادکی تربیت‘ جس میں ہماری اپنی اولاد کی کامیابی کا دارومدار ہے۔ مسلمان ہوکر زندگی گذارنے کا، چین سے گذر بسر کرنا منحصر ہوتا ہے، ہم کو ذرا آنکھ کھول کر خواب غفلت سے بیدار ہوکر دیکھنا اور محاسبہ کرنا ہے کہ ہمارے اپنے لخت جگر جن کے جسم میں خود کا اپنا خون دوڑ رہا ہے ان کی تربیت والدین کی ذمہ داری ہے بلکہ فرض ہے، جس کی اہمیت کا اندازہ حدیث کے ان الفاظ سے ہوتا ہے، پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ ماں کی گود دنیا کی سب سے بڑی درسگاہ ہے ۔ باپ جو اولاد کو سب سے بڑی نعمت عطا کرتا ہے وہ ہے اس کو سچی تربیت ‘‘ یہ الفاظ ہمیں بتارہے ہیں کہ بچوں کی تربیت کو اولین ترجیح دینی چاہیئے۔
جن اسکولس کو ہماری اپنی اولاد کو ہم نے حوالے کیا وہاں ان کی ابتداء کلمات کفریہ اور کلمات شرکیہ سے ہوتی ہے۔ الا ماشاء اللہ قابل مبارکباد ہیں وہ والدین اور وہ ادارہ جات و انسٹی ٹیوشنس جو اس پُرآشوب کے دور میں غیر موافق حالات میں بھی نونہالوں کی ایمانی حفاظت اور دینی وابستگی کے لئے پوری جستجو لگائے رکھتے ہیں لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔ ایسی حالت میں اپنی نسل کی ایمان کی حفاظت والدین کی ناقابل انکار ذمہ داری ہوتی ہے کیونکہ یہ کوئی معمولی چیلنج نہیں ہے اس کا بجا لانا اگرچیکہ دشوار ضرور ہے لیکن اس کے فوائد نہ صرف دنیا میں بلکہ اخروی زندگی اور نیک و صالح اولاد کا کیا ہوا کارِ خیر کا اجر قبر میں بھی پہنچایا جاتا رہے گا۔
یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ آپ کے لخت جگر کو نہ صرف ہر روز اسکول اسمبلی میں سوریہ نمسکار ، گیتا کے پاٹ بلکہ کفریہ و شرکیہ کلمات سے ابتداء ہوکر اسکول کے نصاب (Syllabus) میں بھی دیو مالائی اسباق کے ذریعہ سیکولرازم کے نام پر مشرکانہ سہولیات مہیا کی جانے لگی ہیں۔ دل و دماغ میں غیر اللہ کی طاقت اور قوت کے بیج بوئے جارہے ہیں جو پتھر کی لکیر کی طرح رچ بس جاتے ہیں ان سے رشتہ ٹوٹنے کا ڈر رہتا ہے۔جبکہ اسلام کہتا ہے ہر وقت ہمیں اللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی جس چیز میں ہو اسے اپنانا اور وابستہ رہنا ہے۔ جس پر اللہ راضی رہتا ہو اس پر لپکنا اور جس میں ناراضگی کا شائبہ بھی ہو تو اس سے دور رہنا ہے۔ اخلاقیات سے ہماری اولاد کوسوں دور ہوتی جارہی ہے۔ غیبت کرنا، جھوٹ بولنا، بے ادبی و نافرمانی، گالی گلوج اور جھگڑا کرنے کی عادی ہوتی جارہی ہے جس کے لئے نہ صرف اسکولس بلکہ والدین بھی برابر کے ذمہ دار ہیں کیونکہ والدین اپنی ذمہ داری نہیں نبھارہے ہیں، اولاد کی تربیت میں جو پہلوتہی اور غلطی ہورہی ہے اس کا ہمیں اندازہ نہیں ہورہا ہے۔
جس علم کی ضرورت ہماری اولاد کو ہے جس کی بناء پر ہی مسلمان ہونے کا انحصار ہوتا ہے یہ کوئی معمولی چیز نہیں جس سے بے اعتنائی برتی جارہی ہے ۔ ہم اپنے کاروبار میں پہلو تہی یا غفلت نہیں کرتے، اپنے کاروبارو تجارت سے غافل نہیں ہوتے، اپنی ملازمت و نوکری میں سُستی نہیں کرتے صرف اس لئے کہ اگر غفلت برتیں تو بھوک و رسوائی کا شکار ہوجائیں گے، ہماری زندگی اور جان کے لالے پڑ جائیں گے۔پھر بتاؤ کہ اپنی اولاد کی دینی تربیت میں کیوں غفلت برتتے ہیں جس پر ہمارے ایمان کی حفاظت کا دارومدار ہے۔ یہ احساس نہیں کہ ایمان ضائع ہوجائے، یہ نہیں معلوم کہ ایمان جان سے زیادہ عزیز چیز ہے !۔
اولاد کی دنیوی تعلیم، اعلیٰ تعلیم اور ٹکنالوجی کے حصول کیلئے اسلام باضابطہ حکم دیتا ہے ۔ دینی پہلو کو پَسِ پُشت ڈال کر دنیوی فائدہ تو مل جائے گا لیکن آخرت کی ہمیشہ کی زندگی میں خسارہ ہی خسارہ ہوگا جس کا اثر خود والدین اس دنیا کی زندگی میں بھی بھگتیں گے۔ دنیاوی تعلیم حاصل کرنے والی ہماری اولاد دین سے محروم ہورہی ہے، دین وراثت میں خود بخود حاصل نہیں ہوگا یہ کوئی مال و جائیداد نہیں جو آپ کے ساتھ ہمیشہ لگے رہے خواہ آپ اس کی پرواہ کریں یا نہ کریں۔ اولاد کی دینی تربیت کیلئے آپ کو مسلسل جدوجہد و کوشش کرتے رہنا چاہیئے۔ نصیحت، حکمت و دانائی کے ساتھ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹے بغیر اولاد کی روزانہ کی سرگرمیوں (Activities) پر نظر رکھنا ہوتا ہے۔ نونہالوں کا دماغ Empty Computer ہوتا ہے جو اس میں Feed کیا جاتا ہے وہی رونما ہوتا ہے۔ باپ کو خاص کر گھر والی کی قدر کرنا، بچوں کے سامنے نمونہ (Model) بن کر مثال قائم کرنا ہوتا ہے، باپ خود بے دین ہوگا تو اولاد بددین ہوگی، خود کو دیندار، نمازی، ملنسار، بااخلاق صبرکا سمندر بن کر پیش ہونا ہوتا ہے تو اولاد خودبخود تراشے ہوئے ہیرے کی طرح چمکنے لگے گی ، سکون کا ذریعہ بنے گی اور دنیا و اخروی راحت کا سامان ہوگی۔ اسمارٹ فون (Smart Phone) گھر کو جہنم بناتا ہے اس کی نگرانی ضروری ہے ورنہ دین ادب سے دور ہوکر، قرآنی اقدار سے دور ہوکر آپ گاؤں گاؤں کالج کھول لیں آپ کا بچہ بچہ گریجویٹ ہوجائے، چاہے آپ سودخوری کرکے کروڑپتی بن جائیں لیکن رحمت الٰہی کے مستحق نہیں ہوں گے۔علامہ اقبالؒ کے مطابق : ؎
تیرے دین ادب سے آرہی ہے بوئے رہبانی
یہی ہے مرنے والی امتوں کی عالم پیری
اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ وہ ہمیں اولاد کی تربیت اور مشن رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو عام کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔(آمین)