رام پنیانی
سپریم کورٹ نے ’’ذکیہ جعفری بمقابلہ ریاست گجرات مقدمہ‘‘ میں فیصلہ سناتے ہوئے ذکیہ جعفری کی درخواست مسترد کردی۔ کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ مقتول احسان جعفری کی ضعیف العمر بیوہ نے اپنی درخواست میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی تھی کہ وہ گودھرا ٹرین آتشزدگی واقعہ کے بعد گجرات میں بڑے پیمانے پر ہوئے قتل عام کے پیچھے کارفرما سازش کی تحقیقات کرانے کا حکم دے۔ 27 فروری 2002ء کو جو واقعات پیش آئے تھے، ان میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ مارے گئے تھے جن میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔
سپریم کورٹ نے نہ صرف ذکیہ جعفری کی درخواست مسترد کی بلکہ حقوق انسانی کی جہد کار تیستا سیتلواد اور ریاست کے دو سابق پولیس عہدیداروں (آر بی سری کمار اور سنجیو بھٹ) کو بے بنیاد اور جھوٹے انکشافات کرتے ہوئے سنسنی پیدا کرنے کا ذمہ دار قرار دیا۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں مذکورہ سابق عہدیداروں اور بالخصوص تیستا سیتلواد پر شدید تنقید کی گئی اور کہا گیا کہ تیستا اور دوسرے کئی لوگوں نے تشدد کے متاثرین کو انصاف دلانے کیلئے مقدمات درج کروائے اور اس معاملے میں ان کی نیت ٹھیک نہیں تھی۔ اس کے بعد ایک انٹرویو میں وزیر داخلہ مسٹر امیت شاہ نے آر بی سری کمار اور سنجیو بھٹ کے ساتھ ساتھ تیستا سیتلواد کو مودی اور مودی حکومت کی بدنامی کیلئے ایسا کرنے کا ذمہ دار قرار دیا۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ اور امیت شاہ کے انٹرویو کے فوری بعد گجرات پولیس نے بناء کسی تاخیر کے ممبئی پہنچ کر تیستا کو گرفتار کرکے گجرات منتقل کیا۔ گرفتاری کے وقت ان کے ساتھ ہاتھاپائی بھی کی گئی۔ تیستا کی گرفتاری کے بعد آر بی سری کمار کو بھی گرفتار کیا گیا اور سنجیو بھٹ سابق آئی پی ایس کے خلاف تازہ الزامات عائد کئے جو پہلے سے ہی جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں۔
آپ کو یاد دِلا دیں کہ شتابدی ایکسپریس کے کوچ S6 میں آگ بھڑکنے کے بعد گجرات میں فرقہ وارانہ تشدد برپا کیا گیا۔ اس سانحہ میں 58 کارسیوک (رام سیوک) مارے گئے تھے۔ اس وقت موجودہ وزیراعظم نریندر مودی، گجرات کے چیف منسٹر تھے۔ اس وقت موجودہ وزیراعظم نریندر مودی، گجرات کے چیف منسٹر تھے۔ مودی نے اس واقعہ کو مقامی مسلمانوں اور آئی ایس آئی کی ملی بھگت سے کی گئی دہشت گردانہ کارروائی قرار دیا ۔ ساتھ ہی اس بات کا بھی پروپگنڈہ کیا گیا کہ مسلمانوں نے شتابدی ایکسپریس کی کوچ S6 پر باہر سے آگ بھڑکانے والا مادہ کا چھڑکاؤ کیا۔ حاجی عمرجی کو گودھرا سانحہ کا اصل سازشی قرار دیا گیا اور پھر تقریباً 60 مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔ اس واقعہ کا مقدمہ برسوں چلتا رہا اور پھر ساری دنیا نے دیکھا کہ حاجی عمرجی کو بری کردیا گیا کیونکہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا۔ خود گجرات فارنسک لیباریٹری نے واضح طور پر کہا کہ آگ بھڑکانے والا یا آتش گیر مادہ کا باہر سے چھڑکاؤ نہیں کیا جاسکتا۔ گودھرا ٹرین آتشزدگی پر بنرجی کمیشن رپورٹ میں سازشی نظریہ کو مسترد کردیا۔ ہندوتوا فورس نے سازشی نظریہ کو تقویت پہنچانے کیلئے ریاست میں مسلمانوں کے قفل عام کو معقول قرار دینے کی کوشش کی لیکن آزاد ماہرین نے ایسے تجربات کے ذریعہ بھی ان سازشی نظریوں کو غلط ثابت کیا۔ بہرحال گودھرا سانحہ کے فوری بعد کارسیوکوں کی جھلسی ہوئی نعشوں کو ایک جلوس کی شکل میں احمدآباد لے جایا گیا چنانچہ پی سی پانڈے نے ناناوتی کمیشن کے روبرو پیش ہوکر یہ بیان دیا کہ جھلسی ہوئی نعشوں کو احمدآباد منتقل کرنے یا لے جانے کا فیصلہ اعلیٰ سطح پر کیا گیا۔ تشدد کے دوران فسادیوں کے ہاتھوں میں مسلم گھرانوں اور مسلم اداروں کے ناموں پر مشتمل فہرست تھی۔ یہاں تک کہ قتل عام سے قبل یہ پروپگنڈہ کیا گیا کہ گجرات ہندو راشٹر کی لیباریٹری ہے جبکہ اسی دن فوج طلب کرلی گئی تاہم وہ حرکت میں نہ آسکی کیونکہ لیفٹننٹ جنرل ضمیرالدین شاہ ریاستی حکومت سے مدد باتعاون کے منتظر تھے۔ 3,000 سپاہیوں کو جو احمدآباد پہنچے تھے، یکم مارچ کے دن صبح 7 بجے طیاروں کے ذریعہ پہنچایا گیا تھا اور انہیں گجرات انتظامیہ کی جانب سے سپورٹ کی فراہمی کیلئے پورا ایک دن انتظار کرنا پڑا اور اسی مدت کے دوران ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کا قتل کردیا گیا۔اس قتل کے دوران مایاکوڈنانی جیسے لوگوں نے (مایاکوڈنانی کو گجرات فسادات کے بعد مودی کابینہ میں شامل کیا گیا) جو کردار ادا کیا تھا، سزائے عمر قید دی گئی۔ فی الوقت مایاکوڈنانی ضمانت پر ہے جبکہ ایک اور خاطی بابو بجرنگی نے ’’تہلکہ ڈاٹ کام‘‘ کے اشیش کھیتان کی جانب سے کئے گئے خفیہ آپریشن میں واضح طور پر کہا کہ انہیں (فسادیوں) کو تین دن کا وقت دیا گیا اور اسے تو ایک روزہ میچ کھیلنا تھا اور وہ نہتے مسلمانوں مرد و خواتین اور بچوں کو قتل کرتے ہوئے خود کو مہا رانا پرتاپ کی طرح سمجھنے لگا تھا۔ اشیش کھیتان نے اپنی کتاب ’’انڈر کور‘‘ کے ذریعہ بابو بجرنگی کو دنیا بھر میں بے نقاب کرکے رکھ دیا۔ بابو بجرنگی نروڈا پاٹیہ قتل عام کا کلیدی ملزم ہے جس میں 100 سے زائد مسلمانوں کو بڑی بیدردی سے شہید کیا گیا تھا۔ بابو بجرنگی نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ریاستی قیادت کی فسادات اور فسادیوں پر مضبوط گرفت تھی۔ اس نے بتایا کہ فسادات کے دوران ریوالورس اور دیگر ہتھیار بڑے پیمانے پر فراہم کئے گئے۔ حیرت اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ قبل ازیں سپریم کورٹ نے یہ کہتے ہوئے ریاستی حکومت (حکومت ِگجرات) کی سرزنش کی تھی کہ اس نے فسادات کے دوران معصوم و بے قصور شہریوں کے بشمول بچوں و دیگر کے تحفظ کیلئے درکار ضروری اقدامات نہیں کئے۔ بیسٹ بیکری مقدمہ کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے یہاں تک کہا کہ جس وقت بیسٹ بیکری کا واقعہ پیش آیا اور معصوم بچے جلائے جارہے تھے۔ اس وقت ہر طرف عصر حاضر کے نیروز دکھائی دے رہے تھے اور جان بوجھ کر یہ دیکھ رہے تھے کہ کس طرح اس بھیانک جرم کے خاطیوں کو بچایا جاسکتا ہے۔ ہم بلقیس بانو کے حشر کی بھی یاد دلاتے ہیں جس کی اجتماعی عصمت ریزی کی گئی اور وہ انصاف کیلئے جدوجہد کرتی رہی۔ یہ تمام خوفناک واقعات نے مسلم برادری کو مخصوص محلہ جات تک محدود کردیا اور اسی طرح جوہا پورہ مسلم پناہ گزینوں کا مرکز بن گیا، یہ وہی جوہا پورہ ہے جہاں قبل ازیں ایک ریلیف کیمپ میں جہاں مکینوں کیلئے کافی سہولتیں فراہم کی گئیں، اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے دورہ کرتے ہوئے مودی کو ان کا ’’راج دھرم‘‘ یاد دلایا تھا، لیکن مودی اپنے نظریہ کے تئیں سخت رہے اور کہا کہ وہ جو کچھ کررہے ہیں، وہ دھرم راج ہی ہے۔ گجرات قتل عام نے مودی کو ہندو راشٹر کیلئے مہم شروع کرنے میں اہم کردار ادا کیا چنانچہ وی ایچ پی کے اشوک سنگھل جیسے لوگوں نے اس بات پر زور دینا شروع کردیا کہ اب ہندو پیچھے نہیں ہٹیں گے اور ہر طرف گجرات ماڈل کا استعمال کیا جائے گا لیکن افسوس کے گجرات فسادات پر ریاستی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنانے والی سپریم کورٹ نے ان لوگوں کے خلاف اس قسم کے سخت ترین ریمارکس کئے جو متاثرین تشدد کیلئے اِنصاف کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ گجرات پولیس نے تیستا سیتلواد کی گرفتاری میں حد سے زیادہ سرگرمی کا مظاہرہ کیا۔ اس نے آر بی سری کمار کو گرفتار کرنے میں ایسی ہی سرگرمی دکھائی، پولیس نے جس طرح کی کارروائی کی اور تیستا، سری کمار کے ساتھ رویہ اپنایا، اس کی تمام حلقوں نے مذمت کی۔ حقوق انسانی کی تنظیمیں پولیس کی غیرضروری اور ناپسندیدہ کارروائیوں کے خلاف اجتماعی مظاہرہ کررہی ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بالکل سچ کہا ہے کہ تیستا سیتلواد کو گرفتار کرتے ہوئے ہندوستانی حکام نے یہ بتا دیا ہے کہ جو کوئی حکومت اور حکام سے حقوق انسانی سے متعلق سوال کریں گے تو ان کا حشر بھی تیستا سیتلواد، آر بی سری کمار اور سنجیو بھٹ جیسا ہوگا۔ ان تینوں کی گرفتاری کے ذریعہ مہذب سماج کو یہ خطرناک پیغام بھی دیا کہ ’’سنبھل جاؤ، ورنہ برا ہوگا‘‘۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق انسانی حقوق کے جہد کاروں کو ان کے جائز و قانونی انسانی حقوق کے کاموں کی پاداش میں نشانہ بنانا ناقابل قبول ہے۔ ہندوستانی حکام کو چاہئے کہ وہ تیستا سیتلواد کو فوری رہا کرے اور ہندوستان میں مصروف مہذب سماج اور حقوق انسانی کے پاسبانوں کے خلاف انتقامی قانونی کارروائی کا خاتمہ کرے۔ اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ برائے فروغ انسانی وسائل میری لالر نے اپنے ٹوئٹ میں تیستا کو گجرات پولیس کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ کی جانب سے گرفتار کئے جانے پر تشویش ظاہر کی۔ ان کے خیال میں تیستا نفرت اور امتیاز کے خلاف ایک مضبوط آواز ہے۔ حقوق انسانی کا دفاع کوئی جرم نہیں۔ میں تیستا کی رہائی اور ہندوستانی ریاست کی جانب سے کی جارہی انتقامی کارروائی کے خاتمہ کا مطالبہ کرتی ہوں۔