تیستا سیتلواد کی گرفتاری ایمرجنسی ذہنیت آشکار

   

سگاریکا گھوش
وہ وقت عجیب تھا۔ 25 جون 1975ء کو وزیراعظم اِندرا گاندھی نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی اور اس کے 40 برس بعد 25 جون 2022ء کو ملک کی ممتاز سماجی و حقوق انسانی اور مہذب سماج کی جہدکار تیستا سیتلواد کو گجرات پولیس کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ ممبئی میں واقع ان کے گھر سے گھسیٹ کر لے گئی۔ گجرات اے ٹی ایس کے عہدیدار اچانک تیستا کے مکان میں گھس پڑے اور انہیں حراست میں لے کر باہر منتظر کھڑی ایک پولیس جیپ میں بٹھائے چلتے بنے۔ اُسی دن گجرات پولیس کے سابق ڈی جی پی آر بی سری کمار کی احمدآباد میں گرفتاری عمل میں آئی۔ ان گرفتاریوں نے ہندوستانیوں کو 1975ء کی یاد دلادی۔ جب اندرا گاندھی کی پولیس نے ہزاروں کی تعداد میں اپوزیشن قائدین اور صحافیوں کو جیل میں بند کردیا۔ سارے ہندوستان نے دوبارہ یہ منظر دیکھا کہ کس طرح ریاست ایک شہری کو اقتدار کے ناجائز استعمال کے ذریعہ دبا رہی ہے اور اسے اس کے حقوق سے محروم کررہی ہے۔ اگر آپ ہمارے ملک میں رونما ہورہے خلاف قانون واقعات کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ ایسے واقعات ہیں جو یقینا دہلا دینے والے ہیں۔ جمعہ 24 جون کو سپریم کورٹ ایک فیصلہ سناتی ہے، جس کے ذریعہ اسپیشل انوسٹیگیشن ٹیم (ایس آئی ٹی) کے فیصلہ کو برقرار رکھتی ہے۔ دراصل SIT نے وزیراعظم نریندر مودی (اُس وقت کے چیف منسٹر گجرات) کو کلین چٹ دی تھی کیونکہ ان پر گجرات فسادات اور مجرمانہ سازش میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کئے گئے تھے، تاہم خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے مودی کو تمام الزامات سے بری قرار دیا۔ اب سپریم کورٹ نے بھی کانگریس کے مقتول رکن پارلیمنٹ احسان جعفری کی بیوہ 82 سالہ ذکیہ جعفری کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے مودی کو ایک بار پھر کلین چٹ دے دی۔ 453 صفحات پر مشتمل فیصلہ میں عدالت نے واضح طور پر کہا کہ گجرات فسادات میں جیسا کہ الزامات عائد کئے گئے کہ حکام کی ملی بھگت اور مجرمانہ سازش کے نتیجہ میں فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ وہ الزامات ثابت نہیں کئے جاسکے۔ فیصلہ میں لا اینڈ آرڈر کی ناکامی اور گجرات کے ریاستی انتظامیہ کی نااہلی کے بھی حوالے دیئے گئے۔ سپریم کورٹ فیصلہ کے ایک دن بعد ایک پولیس انسپکٹر نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کا حوالہ دیتے ہوئے سابق آئی پی ایس عہدیدار آر بی سری کمار کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی جو گجرات فسادات کے دوران مودی حکومت کے کٹر ناقد تھے اور جنہوں نے گجرات فسادات میں مودی حکومت کے کردار کو لے کر سخت تنقیدیں کی تھیں، اس کے علاوہ تیستا سیتلواد جنہوں نے ذکیہ جعفری کی مودی کے خلاف درخواست کی تائید کی تھی، انہیں اخلاقی مدد فراہم کی تھی، کے ساتھ ساتھ ایک اور سابق آئی پی ایس عہدیدار سنجیو بھٹ کے خلاف بھی مقدمہ درج کروایا۔ مسٹر سنجیو بھٹ پہلے ہی سے ایک اور مقدمہ میں (جسے جعلی یا فرضی مقدمہ کہا جاتا ہے) قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں۔ حیرت اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اسی دن مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے خبر رساں ایجنسی ANI کو ایک انٹرویو دیا جسے تمام نیوز چیانلوں نے پیش کیا۔ اس انٹرویو میں امیت شاہ نے تیستا سیتلواد اور ان کی غیرسرکاری تنظیم کا نام لیتے ہوئے کہا کہ تیستا کی این جی او نے گجرات بھر کے بی جے پی ورکروں کے خلاف الزامات عائد کئے اور پولیس کو گمراہ کیا۔ امیت شاہ کے اس انٹرویو کے چند گھنٹوں بعد گجرات پولیس کا انسداد دہشت گردی اسکواڈ بناء کسی تاخیر کے سیتلواد کی قیام گاہ پہنچ کر انہیں گرفتار کرلیتا ہے۔ بہرحال سپریم کورٹ کا فیصلہ، ایف آئی آر کا اندراج مرکزی وزیر داخلہ کا انٹرویو اور تیستا سیتلواد کے خلاف گجرات پولیس کی کارروائی سب کچھ واضح کردیتی ہے کہ تیستا سیتلواد کی گرفتاری کے پیچھے کون ہیں؟ اور ان کے کیا عزائم ہیں۔ اس فیصلہ میں ثبوت پر مبنی فیصلے سے ہٹ کر ضرورت سے زیادہ پریشان کن رائے پر مبنی تبصرے کئے گئے ہیں۔ عدالت نے تیستا سیتلواد جیسے جہد کاروں کا آرام دہ ایرکنڈیشنڈ کمروں پر مشتمل دفاتر میں بیٹھنے والوں کے طور پر حوالہ دیا جبکہ درخواست گذاروں بشمول احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری نے 16 برسوں تک بے تکان انداز میں یہ مقدمہ لڑا۔ ان کے متعلق عدالت نے سخت الفاظ استعمال کئے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ ہمیں لگتا ہے کہ ناراض عہدیداروں کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں کی مشترکہ کوشش سنسنی پیدا کرنے کی تھی حالانکہ ان کو معلوم تھا کہ وہ جھوٹے تھے۔ درحقیقت قانونی عمل کے اس طرح کے غلط استعمال میں ملوث تمام افراد کو کٹہرے میں کھڑا ہونا چاہئے اور قانون کے مطابق آگے بڑھنا چاہئے۔ عدالت نے یہاں تک کہہ دیا کہ موجودہ قانونی کارروائی 16 برسوں سے جاری ہے جس میں ہر فرد کی سالمیت پر سوالات اُٹھانے کی جرأت کی گئی ہے جس کے پیچھے کارفرما غلط عزائم تھے۔ سرکاری عہدیداروں کو سوال کرنے کی جرأت سے متعلق جملہ اس وقت دلچسپ بن جاتا ہے جب اس عدالت نے اگست 2017ء میں اپنے حق رازداری کے فیصلے میں کہا تھا کہ جو لوگ حکومت کرتے ہیں، وہ ان لوگوں سے سوال کرنے کے حقدار ہیں جو اپنے آئینی فرائض کی انجام دہی کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ بہرحال آج تیستا سیتلواد کو ذکیہ جعفری کا ساتھ دینے اور وزیراعظم و دیگر کے خلاف سپریم کورٹ میں ذکیہ جعفری کے ساتھ شریک درخواست گذار رہنے کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ واضح رہے کہ تیستا سیتلواد ، سری کمار اور سنجیو بھٹ کے خلاف جو ایف آئی آر درج کی گئی ہے، اس میں تینوں کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعات 468، 120B، 194،211 اور 218 کے تحت الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ ان تمام واقعات سے ایمرجنسی کی ذہنیت کا اظہار ہوتا ہے اور آج یہ حال ہوگیا ہے کہ جو کوئی حکومت اور حکام کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے یا ان کے اقدامات پر سوال اُٹھاتا ہے تو پھر اسے ریاست کے دشمن یا قوم دشمن اور شہری نکسل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ سال 2015ء میں ماحولیات کی جہدکار اور گرین پیس کی پریہ پلائی کو لندن کا سفر کرنے سے روک دیا گیا جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل (انڈیا) کے سربراہ آکار پاٹل کے بیرونی ملک سفر پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ حد تو یہ ہے کہ انفورسمنٹ ایجنسیوں نے ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی عالمی سطح پر مسلمہ تنظیم کے خلاف تحقیقات بھی شروع کردی۔ یہی نہیں بلکہ قبائیلی حقوق کی جہدکار سدھا بھردواج کو ایک ایسے مقدمہ میں 3 سال جیل میں رکھا گیا جس میں بے شمار خامیاں تھیں۔ دوسرے جہد کار جیسے گوتم نولکھا ہنوز سلاخوں کے پیچھے ہے جبکہ انتہائی ضعیف العمر جہدکار فادر استانلی سوامی UAPA کے تحت جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے موت کی آغوش میں چلے گئے۔ سی اے اے سے لے کر آرٹیکل 370 کی منسوخی کے خلاف بات کرنے والے بیسیوں جہدکاروں کو جیل کی ہوا کھانی پڑی۔ اب تیستا کو صرف اس لئے ستایا جارہا ہے کیونکہ اس نے احسان جعفری کی ضعیف بیوہ کا ساتھ دیا۔ گجرات فسادات کے متاثرین کے حق میں آواز اٹھائی اور ملک میں قانون کی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کی۔