ہند ۔ پاک جنگ بندی … ہند ۔ امریکہ کریڈٹ جنگ شروع
سیز فائر یا ڈیل … اصلی ہیرو، ٹرمپ یا مودی
رشیدالدین
ہند ۔ پاک جنگ تو رُک گئی لیکن امریکہ اور ہندوستان کے درمیان نئی جنگ شروع ہوگئی۔ یہ جنگ میزائیلس اور ڈرونس حملوں کی نہیں بلکہ کریڈٹ کی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سیز فائر یعنی جنگ بندی کا سہرا کس کے سر باندھا جائے اور جنگ بندی کا اصلی ہیرو کون ہے؟ امریکہ تو ہندوستان کی طرف کریڈٹ کے گولے داغ رہا ہے لیکن جواب میں ہندوستان سے گولہ تو دور گولی بھی نہیں چلائی گئی۔ کریڈٹ کے گولے کے جواب میں ہندوستان گولی چلانے کے موقف میں بھی دکھائی نہیں دیتا۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ 6 مرتبہ دُنیا کے سامنے یہ دعویٰ کرچکے ہیں کہ سیز فائر اُنھوں نے کرایا ہے۔ ایک مرحلہ پر اُنھوں نے یہ کہتے ہوئے خود کو شاباشی دی کہ سیز فائر کا شاندار کام میں نے کیا۔ نریندر مودی دعویٰ کررہے ہیں کہ آپریشن سندور کے ذریعہ پاکستان کو دھول چٹائی گئی اور پاکستان نے گھٹنے ٹیک کر جنگ بندی کی درخواست کی جبکہ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ تجارت روکنے کی دھمکی دے کر میں نے سیز فائر کرادیا۔ مودی کا دھول چٹانے کا دعویٰ درست ہے یا پھر ٹرمپ نے دونوں کو دھمکی دے کر ڈیل کرادی اسے صحیح سمجھا جائے۔ ٹرمپ کے مطابق اُنھوں نے ’’لڑائی نہیں تجارت کرو‘‘ کے نظریہ کے دونوں ممالک کو سیز فائر کے لئے تیار کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ سیز فائر سے زیادہ ڈیل یعنی معاملہ طے ہونے کی بات کررہے ہیں۔ الغرض جنگ بندی کے ساتھ ہی کئی سوال کھڑے ہوگئے۔ آخر سیز فائر کا اصلی ہیرو کون ہے؟ سیز فائر کیوں کیا گیا اور ہندوستان نے کن شرطوں پر سیز فائر کو قبول کیا؟ اگر پاکستان کے گھٹنے ٹیکنے کے بعد سیز فائر کا دعویٰ درست ہے تو پھر ٹرمپ کے کریڈٹ لینے کی نریندر مودی تردید کیوں نہیں کررہے ہیں؟ مودی کی خاموشی کے پیچھے آخر کیا راز ہے؟ جنگ بندی ہوئی یا تجارت کے نام پر کوئی ڈیل؟ سیز فائر کا اعلان ٹرمپ نے واشنگٹن سے کیوں کیا؟ ٹرمپ کے اعلان کے بعد ہندوستان اور پاکستان کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کا مطلب کیا سمجھا جائے؟ سیز فائر کا اصلی ہیرو ٹرمپ ہے یا مودی؟ کیا پہلگام دہشت گرد حملہ کا بدلہ مکمل ہوگیا؟ کیا پاک مقبوضہ کشمیر کو حاصل کرلیا گیا؟ جب ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تو پھر اچانک سیز فائر کا اعلان اور مذاکرات سے اتفاق کیوں کیا گیا؟ نریندر مودی کی بہادری اور دلیری کہاں چلی گئی جب اُنھوں نے گھر میں گھس کر مارنے اور دہشت گرد ٹھکانوں کے صفائے تک خاموش نہ رہنے کی بات کہی تھی۔ مودی کا 56 انچ کا سینہ کیا صرف ہندوستانی عوام اور اپوزیشن کے لئے ہے؟ ٹرمپ کا سامنا ہوتے ہی 56 انچ کا سینہ کیوں سکڑ جاتا ہے؟ سیز فائر کی وجوہات اور ٹرمپ کے کریڈٹ لینے پر نریندر مودی نے آج تک بھی خاموشی نہیں توڑی۔ وزیراعظم، وزیر دفاع یا وزیر خارجہ کی جانب سے ٹرمپ کے دعوے کی تردید کے بجائے گودی میڈیا میں ’’ذرائع‘‘ کے حوالے سے تردید کرتے ہوئے عوام کو مطمئن کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے۔ آخر ٹرمپ کا خوف ایسا کیوں ہے کہ مودی اُن کا نام لے کر تردید کرنے تیار نہیں۔ اِن حالات میں سیز فائر کے بارے میں عوام کے ذہنوں میں سوالات کا اُبھرنا واجبی اور فطری ہے۔ پہلگام میں 22 اپریل کو دہشت گردوں نے 26 سیاحوں کو ہلاک کیا تھا۔ ہندوستان نے 6 مئی کی رات دیر گئے آپریشن سندور کا آغاز کیا اور پاکستان میں موجود دہشت گرد ٹھکانوں کو تباہ کیا گیا۔ 7 مئی سے باقاعدہ دونوں ممالک میں حملے اور جوابی حملوں کا آغاز ہوا۔ جنگ سرحدوں سے نکل کر آبادیوں تک پہونچ گئی۔ میزائیلس اور ڈرون حملوں کے ساتھ ساتھ شلباری اور گولہ باری ہوتی رہی۔ اچانک 3 دن بعد 10 مئی کو ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر سیز فائر کا اعلان کردیا اور دونوں ممالک ٹرمپ کے اعلان کی تعمیل کرنے لگے۔ نریندر مودی 12 مئی کو قوم سے خطاب کرنے والے تھے لیکن عین خطاب سے قبل ٹرمپ نے واشنگٹن سے پھر ایک مرتبہ دونوں ممالک میں ڈیل کرانے کا دعویٰ کیا۔ 13 مئی کو سعودی عرب، 14 مئی کو ایک ٹی وی انٹرویو، اُس کے بعد قطر میں بھی ٹرمپ اپنے دعوے کو دہرانے سے نہیں چُکے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹرمپ اور مودی جوکہ آپس میں ’’گڈ فرینڈ‘‘ ہیں، اُن میں سچ کون بول رہا ہے اور جھوٹا کون ہے؟ مودی کی خاموشی ٹرمپ کے دعوے کو مضبوطی عطا کرتی ہے۔ بی جے پی نے سیاسی فائدے کے لئے ترنگا یاتراؤں کا آغاز کردیا لیکن عوام پوچھ رہے ہیں کہ یہ آخر کس کی کامیابی پر یاترا نکالی جارہی ہے۔ عوام یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ سیز فائر تھا یا پھر کوئی ڈیل؟ پہلگام حملہ سے لے کر آپریشن سندور تک سارا ملک نریندر مودی کے ساتھ کھڑا تھا اور پاکستان کو دھول چٹانے اور فیصلہ کن کارروائی کی تائید کی گئی لیکن سیز فائر کے بعد مودی کو کامیابی کا سہرا اپنے سر باندھنے کے لئے جدوجہد کرنی پڑرہی ہے۔ گودی میڈیا میں ٹرمپ کے دعوؤں سے زیادہ مودی کے خطاب کو بڑا چڑھاکر پیش کیا گیا۔ جنگ کا ہیرو سیز فائر کے ساتھ زیرو ہونے لگا ہے کیونکہ ٹرمپ نے ہیرو کا کریڈٹ مودی سے چھین لیا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان ٹرمپ نے سرکس کے رنگ ماسٹر کا رول ادا کیا ہو۔ لڑائی اور پھر سیز فائر؟ ’’کھیل ختم پیسہ ہضم‘‘ کے مصداق تو نہیں۔ امریکہ نے دونوں ممالک کی فوجی طاقت اور صلاحیت کا بخوبی اندازہ کرلیا ہے۔ اُسے یہ بھی پتہ چل گیا کہ کونسا ملک کس کے ساتھ کھڑا ہے۔ جب مقصد پورا ہوگیا تو سیز فائر کا اعلان کردیا گیا۔ جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے صحیح ہے کہ جنگ سے کئی ممالک کو فائدہ ہوا۔ پاکستان کو (IMF) عالمی مالیاتی فنڈ سے قرض مل گیا۔ چین نے اپنے جیٹ اور میزائیل سسٹم کا تجربہ کرلیا۔ ترکی نے اپنے ڈرونس کی صلاحیت کو پرکھ لیا۔ فرانس نے رافیل جنگی طیاروں کی طاقت کو دیکھا اور ٹرمپ کو سیز فائر کا کریڈٹ مل گیا جس کے ذریعہ وہ امن کا نوبل پرائز حاصل کرپائیں گے۔
آپریشن سندور کے آغاز کے وقت کشمیر مسئلہ نہیں تھا، مسئلہ دراصل دہشت گردی اور پہلگام دہشت گرد کارروائی تھا۔ پاکستان کی جانب سے دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی آپریشن سندور کا اہم مقصد تھا لیکن ایک اہم جھٹکے میں کشمیر ایک مسئلہ بن کر اُبھر آیا۔ سیز فائر کا اعلان کرنے والے ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر کو چھیڑ دیا اور کہاکہ وہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دیرینہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں مدد کرسکتے ہیں۔ ٹرمپ دنیا کے طاقتور ترین ملک کے سربراہ ضرور ہیں لیکن اُن کی معلومات ایک عام آدمی سے بھی کم ہے۔ دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کو ڈنر کی پیشکش کرنے والے امریکی صدر ایک سے زائد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ کشمیر دونوں ممالک کے درمیان ایک ہزار سال سے زائد کا تنازعہ ہے۔ پاکستان کا وجود 1947ء میں عمل میں آیا جس کے بعد سے کشمیر دونوں ممالک کے درمیان ایک مستقل تنازعہ بن چکا ہے لیکن ٹرمپ کے لئے 78 سال کی یہ مدت ایک ہزار سال کے برابر ہے۔ ٹرمپ جان بوجھ کر غلطی کررہے ہیں یا پھر اُن کے مزاج کے اعتبار سے کوئی مشیر بھی ٹوکنے کی ہمت نہیں کرپارہا ہے۔ پہلی میعاد میں ٹرمپ نے ہند ۔ پاک تنازعات کے حل کے لئے ثالثی کا پیشکش کیا تھا جسے ہندوستان نے مسترد کردیا۔ دوسری میعاد میں آپریشن سندور کی آڑ میں دوبارہ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر کو چھیڑ دیا۔ ٹرمپ کون ہوتے ہیں ایک باہمی مسئلہ میں ثالثی کا پیشکش کرنے والے؟ کشمیر تنازعہ میں امریکہ کے لئے کوئی رول نہیں ہے جس کا واضح ثبوت شملہ معاہدہ ہے جس میں دونوں ممالک نے تمام تنازعات کو باہمی طور پر حل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سیز فائر کا کریڈٹ ہو یا پھر کشمیر کے مسئلہ پر ثالثی اِن دونوں اُمور پر ٹرمپ کو کھری کھری سنانے میں ہندوستان شرمارہا ہے۔ آخر ہندوستان کی ایسی کیا مجبوری ہے کہ وہ ٹرمپ کو جواب دینے تیار نہیں۔ 2017ء میں امریکی صدارتی انتخابی مہم میں نریندر مودی نے امریکہ پہونچ کر ’’اب کی بار ٹرمپ سرکار‘‘ کا نعرہ لگایا تھا جس کے بعد دونوں ’’گڈ فرینڈ‘‘ بن گئے لیکن دوسری میعاد میں گڈ فرینڈس کے درمیان دوری صاف طور پر دکھائی دے رہی ہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان کی جانب سے نیوکلیر حملہ کی تیاریوں کو دیکھتے ہوئے ٹرمپ نے مداخلت کی اور دونوں کو سیز فائر کے لئے راضی کرلیا۔ مودی نے پاکستان پر واضح کیاکہ وہ نیوکلیر حملے سے متعلق بلیک میل کو قبول نہیں کریں گے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان نیوکلیر طاقت اور اِس بات کا اندیشہ تھا کہ جب ہندوستانی حملوں کی شدت میں اضافہ ہوگا تو وہ مجبوراً نیوکلیر ہتھیار کا استعمال کرسکتا ہے۔ تباہی کو ٹرمپ نے تجارت کا موڑ دے دیا اور سیز فائر کو تجارتی ڈیل میں تبدیل کرتے ہوئے دونوں ممالک کو راضی کرلیا۔ قوم سے خطاب میں نریندر مودی نے کہاکہ آپریشن سندور ختم نہیں بلکہ عارضی طور پر ملتوی کیا گیا ہے۔ جنگ بندی کے نفاذ کے بعد بھی روزانہ کشمیر، پنجاب اور راجستھان کے سرحدی علاقوں میں پاکستان کے ڈرونس پرواز کررہے ہیں اور ہندوستان کو اُنھیں ناکارہ بنانے کی جدوجہد کرنی پڑرہی ہے۔ آخر جنگ بندی کی اِس خلاف ورزی پر ہندوستان خاموش کیوں ہے؟ الفاظ کی تُک بندی میں ماہر نریندر مودی نے یہ کہتے ہوئے عوام کو خوش کردیا تھا کہ ٹیرر اور ٹاک، ٹیرر اور ٹریڈ ایک ساتھ نہیں چل سکتے، اُسی طرح پانی اور خون ایک ساتھ نہیں بہہ سکتا۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار نریندر مودی کو اندرا گاندھی سے بہتر وزیراعظم ثابت کرنے میں مصروف ہے لیکن ٹرمپ اِس راہ میں اہم رکاوٹ دکھائی دے رہے ہیں۔ دوسری طرف آپریشن سندور کی قیادت کرنے والی کرنل صوفیہ قریشی کے خلاف مدھیہ پردیش کے وزیر وجئے شاہ کا بیان ہر ہندوستانی کا سر شرم سے جھکانے کے لئے کافی ہے۔ وجئے شاہ نے صوفیہ قریشی کو دہشت گردوں کی بہن قرار دیا۔ آپریشن سندور کی قیادت کرنے والی اِس بہادر کرنل کو محض اِس لئے نشانہ بنایا گیا کیونکہ وہ مسلمان ہے۔ ظاہر ہے بی جے پی اور سنگھ پریوار کے عناصر دلوں میں مسلمانوں سے نفرت کو زیادہ دیر تک چھپا نہیں سکتے اور کسی نہ کسی طرح اپنی اصلیت پر آجاتے ہیں۔ ہائیکورٹ نے مقدمہ درج کرنے کی ہدایت دی لیکن اِس معاملہ میں بھی ٹال مٹول کی گئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وجئے شاہ کو یہ حوصلہ کہاں سے ملا کہ ایک ایسی خاتون کرنل جس کی نہ صرف 140 کروڑ ہندوستانی بلکہ ساری دُنیا میں واہ واہی ہورہی ہے اُسے دہشت گردوں کی بہن قرار دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ یہ حوصلہ نریندر مودی سے ہی ملا ہوگا جنھوں نے مسلمانوں کو پنکچر جوڑنے والا، زائد بچے پیدا کرنے والے اور لباس سے پہنچاننے کی بات کہی تھی۔ سیز فائر کے بعد کی صورتحال پر راحت اندوری کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
خوف بکھرا ہے دونوں سمتوں میں
تیسری سمت کا دباؤ ہے کیا