تین سال قبل آج ہی کےدن اترپردیش کے بدایوں کا رہنے والا نجیب احمد دہلی کے جواہرلال نہرو یونیورسٹی کے ہاسٹل سےاچانک غائب ہوگیا تھا۔ تب سےلے کر آج تک ملک کی تین ٹاپ سیکورٹی ایجنسیاں نجیب احمد کوتلاش کرچکی ہیں، لیکن ابھی تک اس کا کچھ پتہ نہیں چلا ہے۔ نجیب احمد کی ماں فاطمہ نفیس بھی اس کی تلاش میں پریشان ہیں۔ تمام طرح کی افواہوں اورقیاس آرائیوں کےدرمیان ان کا کہنا ہےکہ نجیب احمد کی تلاش میں مصروف لوگوں سےانہیں کوئی شکایت نہیں ہے.۔
نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے جےاین یوکے لاپتہ طالب علم نجیب احمد کی ماں فاطمہ نفیس نےکہا ‘ہم نجیب کی تلاش کرنےکےمطالبے کولے کرجب بھی کوئی احتجاج کرتے ہیں تو پولیس اوردوسری ایجنسیوں کے ذریعہ کچھ لوگوں کو پریشان کرنا شروع کردیا جاتا ہے۔ تاہم گزشتہ تین سال سے میرے پاس نہ توکبھی کوئی فون آیا اورنہ ہی مجھے تھانے بلایا گیا۔ کیونکہ انہیں معلوم ہےکہ وہ اس ماں کا سامنا کیسےکریں گے، جس کا بیٹا تین سال سےغائب ہو۔ اس ماں کے سوالوں کا جواب کیسے دیں گے، آخرمیں وہ لوگ بھی انسان ہیں، ان کے دل میں بھی انسانیت ہے، لیکن میں جانتی ہوں کہ وہ مجبورہیں، ان پربڑے لوگوں کا دباؤ ہے۔ سبھی لوگ خراب نہیں ہوسکتے ہیں۔
نجیب کےبھائی حسیب احمد کا الزام ہےکہ نجیب بھائی جےاین یوکے ماہی مانڈوی ہاسٹل کے روم نمبر106 میں رہتےتھے۔ اس وقت ہاسٹل میں الیکشن چل رہے تھے۔ کچھ لوگ کمرے میں تشہیرکرنےکےلئےآئےتھے۔ تبھی کچھ کہا سنی ہوگئی۔ یہ لوگ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد سے منسلک تھے۔ بات کافی آگے تک بڑھ گئی، بھائی کوطرح طرح سے پریشان کیا گیا۔ اسی کے بعد انہیں غائب کردیا گیا۔
