تین طلاق بل لوک سبھا میں منظور،خواتین سے انصاف کا دعویٰ

,

   

کانگریس کا واک آؤٹ، حکومتی اقدام مسلم شوہروں کی ہراسانی ۔ شہریوں کیلئے ’فکرمند‘ حکمران ہجومی تشدد کیخلاف قانون کیوں نہیں بناتے، آر ایس پی کا سوال
نئی دہلی ، 25 جولائی (سیاست ڈاٹ کام) لوک سبھا نے آج حکومت کے تازہ تین طلاق بل کو منظوری دے دی، جو ایک نشست میں طلاق ثلاثہ کو مجرمانہ فعل قرار دیتا ہے اور خاطی شوہر کو تین سال تک سزائے قید کی گنجائش فراہم کرتا ہے۔ اپوزیشن کی بڑی پارٹی کانگریس نے جس کا موقف بل کو اسٹانڈنگ کمیٹی کے پاس بھیجنا ہے، مجوزہ قانون سازی کے خلاف ایوان سے واک آؤٹ کیا۔قبل ازیں ایوان زیراں نے جمعرات کو فتنہ انگیز بل پر غوروخوض شروع کیا تاکہ ایک نشست میں تین طلاق کے طریقے کو غیرقانونی قرار دیا جاسکے جس میں شوہر کیلئے تین سال قید کی گنجائش رہے۔ اس بل کو غوروخوض کیلئے پیش کرتے ہوئے وزیر قانون روی شنکر پرساد نے کہا کہ یہ قانون سازی جنس کی مساوات اور جنس کے انصاف کیلئے ناگزیر ہے کیونکہ اگست 2017ء میں سپریم کورٹ فیصلے کے ذریعے فوری تین طلاق کی روش کو مسترد کردینے کے باوجود خواتین کو ’طلاق بدعت‘ کے ذریعے ازدواجی بندھن سے نکالا جارہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جنوری 2017ء سے تین طلاق کٹے چند نہیں بلکہ 574 کیس اور سپریم کورٹ حکمنامہ کے بعد سے اس طرح کے زائد از 300 معاملوں کی میڈیا نے اطلاع دی ہے۔ ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ کیا ہمیں مسلم خواتین کو یونہی استحصال کیلئے چھوڑ دینا چاہئے؟ وزیر قانون نے کہا کہ دنیا کے 20 مسلم ممالک بشمول پاکستان اور ملائیشیا تین طلاق پر امتناع عائد کرچکے ہیں۔ سکیولر انڈیا کیوں ایسا نہیں کرسکتا ہے؟ پرساد نے کہا کہ سپریم کورٹ کی پانچ ججوں کی بنچ کے تین مختلف فیصلے ہوئے اور ایک فیصلے میں عدالت نے کہا کہ تین طلاق ’شریعت‘ کا حصہ ہے

اور اس عمل کو ختم کرنے کیلئے کوئی قانون بنانا چاہئے۔ وزیر قانون نے کہا کہ ہمارے دستور کا بنیادی فلسفہ جنس کی مساوات ہے چاہے کوئی مذہب ہو۔ ہم خواتین کو عزت اور انصاف دینا چاہتے ہیں۔ وزیر قانون نے ایم پیز سے اپیل کی کہ مجوزہ قانون سازی کو سیاست یا مذہب کی روشنی میں نہ دیکھیں۔ پرساد نے ایسے اندیشے مسترد کردیئے کہ مجوزہ قانون کا بے جا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس بل میں تین نئے دفعات شامل کئے گئے ہیں: متاثرہ خاتون کا کوئی قریبی رشتہ دار ہی کیس درج کرا سکتا ہے، مصالحت کا راستہ موجود ہے اور مجسٹریٹ متاثرہ خاتون کی سماعت کے بعد ملزم کو ضمانت دے سکتا ہے۔ اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے آر ایس پی ممبر این کے پریم چندرن نے کہا کہ یہ بل دوررس سیاسی مقصد کے ساتھ لایا گیا ہے کہ مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنایا جاسکے اور اس میں بی جے پی کا خاص سیاسی ایجنڈہ مضمر ہے۔ انھوں نے مزید کہا اور استفسار کیا کہ آپ (حکومت) یہ بل عدالت کے اقلیتی فیصلے کی اساس پر لارہے ہو۔ اگر آپ کو اتنی ہی فکر ہے تو کیوں آپ ہجومی تشدد کے واقعات کو ختم کرنے کیلئے قانون سازی نہیں کرتے۔ سبری مالا مندر کے بارے میں آپ کا کیا موقف ہے؟ آر ایس پی ممبر نے کہا کہ اس موضوع پر آرڈیننس دستور کے ساتھ دھوکہ ہوا کیونکہ سیول معاملہ کو فوجداری معاملہ میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ کس طرح کوئی مقید شوہر مطلقہ کو معاوضہ دے سکتا ہے؟ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہندو اور عیسائی برادریوں میں طلاق کیلئے سزائے قید کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ’’یہ مسلم خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے نہیں بلکہ مسلم شوہروں کو ہراساں کرنے کا اقدام ہے۔‘‘