تین قدم پر مشتمل فرقہ وارانہ کھیل کا سازشی منصوبہ

   

پرکاش کرت
شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) 2019 اور قومی شہریت رجسٹر باہم مربوط اور دوہرے اقدامات ہیں۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ اور اس کے باہر بار بار یہ بات دہرائی اور اس کو بزور واضح کیا۔ پہلی بات یہ کہ سی اے اے کو پارلیمنٹ میں اپنایا جائے گا اور بعدازاں این آر سی کو لایا جائے گا۔ اس کالے قانون کے خلاف پھیل گئے زبردست احتجاج اور مظاہروں کے بعد مرکزی حکومت اس بات کے لئے کوشاں ہے، وہ اس کالے قانون پر عمل درآمد کو ناکام بنائے۔ وہ (مرکزی حکومت) اس کالے قانون کی وضاحت میں (مجرمانہ) کمی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اس (این آر سی) کو پورے ملک میں نافذ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ وزیر مملکت برائے امور داخلہ جی کشن ریڈی نے کہا کہ ’’ملک بھر میں این آر سی کے نفاذ کا اعلامیہ ابھی تک جاری نہیں کیا گیا ہے اور اس سے کسی کو خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے‘‘ اور پھر مرکزی حکومت نے ہندی اور اُردو اخبارات میں یہ اشتہارات شائع کروائے جس میں کہا گیا کہ ’’ابھی تک این آر سی کے لئے کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا اور اگر مستقبل میں ایسا کچھ ہو تو اس کا باضابطہ قواعد و ضوابط کے تحت اعلان کیا جائے گا اور کوئی ہندوستانی اس (این آر سی) سے قطعی متاثر نہ ہوگا۔ یہ اور اس قسم کے اعلانات صرف طفل تسلیوں کے مماثل ہیں اور اس کی ایک مشق ہیں۔ ایک اہم حقیقت یہ ہے کہ این آر سی دراصل این پی آر (قومی آبادی رجسٹر) کی تدوین کا پہلا مرحلہ ہے۔ این پی آر کی تیاری اور تشکیل کے لئے ملک بھر میں سوائے آسام گھر گھر کارندے پہنچ کر شہریوں کی تعداد جمع کریں گے اور تازہ جانکاری حاصل کرنے کے لئے رجسٹرار جنرل برائے سٹیزن رجسٹریشن 31 جولائی 2019ء کو جاری کرے گا۔ اس میں ان افراد کو شمار کیا جائے گا جو اس (مقامی رجسٹرار کے) دائرہ کار میں رہتے ہوں اور اس شمار کا آغاز یکم اپریل2020ء تا 30 ڈسمبر2020ء ہوگا۔ یہی این پی آر، این آر سی کی طرف پہلا قدم ہوگا اور اس این پی آر کی بنیاد پر ہندوستانی شہریوں کی توثیق عمل میں آئے گی۔ یہ ہے وہ طریقہ کار جو شہریت قواعد 2003ء کے لئے وضع کیا گیا ہے۔

نوٹ کے قابل ہے کہ ان قواعد کے بموجب اس توثیق عمل کے دوران جن شہریوں کا ڈاٹا شکوک کے دائرے میں آئے گا، اس میں ایک شکایتی نوٹ برائے مزید انکوائری لکھا جائے گا جو مقامی رجسٹرار کے پاس داخل کیا جائے گا اور اس توثیقی عمل کے اختتام کے معاً بعد ایک مخصوص پروفارما کے بارے میں مطلع کیا جائے گا۔ ان قواعد کی ایک اور شق (a)(s)4 کے بموجب مشکوک شہریوں کو موقع دیا جائے گا کہ وہ سب ڈسٹرکٹ یا پھر تعلقہ رجسٹرار برائے سی این آر ہندوستانی شہریت تک رسائی دی جائے گی اور بعدازاں وہاں سے تصدیق یا تردید کی بناء پر اس کی شمولیت یا خارج کا فیصلہ کیا جائے گا۔
ان (مشکوک) افراد کو بائیومیٹرک ثبوت بھی دینا ہوگا۔ 15 مختلف سوالات کئے جائیں گے جس میں مقام پیدائش، تاریخ پیدائش اور اس کے والد اور والدہ کا نام پوچھا جائے گا اور اس میں ایک نیا اضافہ آدھار نمبر بھی شامل کیا گیا ہے جس کے متعلقہ ایجنسی (یو آئی ڈی اے آئی) سے توثیق کی جائے گی۔ این پی آر کی تدوین میں درج افراد کا بائیومیٹرک ثبوت دینا ہوگا جو پریشان کن حالات کو جنم دیتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ توثیق مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کے بیان کے بموجب ہندو مہاجرین کے خلاف دراندازیوں کو ختم کرتا ہے جو سی اے اے کے اہل ہوجائیں گے جبکہ مشکوک شہریوں کو توثیق کے سخت ترین عمل سے گزرنا ہی ہوگا۔

این آر سی کو کسی نئے قانون یا ترمیم کی ضرورت نہیں ہوگی۔ بالکل پہلی مرتبہ این آر سی کو لازمی قرار دے کر پہلی بار ہر ہندوستانی کو رجسٹر کیا جائے اور قومی شناختی کارڈ جاری کیا جائے۔ واضح رہے کہ این پی آر راست طور پر این آر سی سے مربوط ہے۔
بی جے پی کا گیم پلان کے تحت مغربی بنگال جیسی ریاستوں میں فرقہ وارانہ تقسیم پیدا کرنا ہے۔ ایک طرف وہ (بی جے پی) دعویٰ کرتی ہے کہ بنگلہ دیش کے مسلم دراندازوں کو این آر سی ختم کردے گی تو دوسری طرف وہ کہتی ہے کہ بنگلہ دیش کے ہندوؤں کو سی اے اے میں ترمیم کرکے جو کئی دہائیوں کے دوران سرحد پار کرکے ہندوستان آئے ہیں، انہیں ہندوستانی شہریت عطا کرے گی۔
ضرورت سے زیادہ اور نہایت مہنگا مرحلہ!
آدھار کارڈ نے پہلے ہی سے زیادہ تر آبادی کو شامل کیا ہوا ہے۔ ووٹر شناختی کارڈ بھی پہلے ہی سے موجود ہیں۔ اس این آر سی پر ضرورت سے زیادہ خرچ آئے گا اور اس این آر سی کی چکی میں پسنے والے غریب ترین طبقات جیسے مہاجر مزدور، دور دراز علاقوں میں رہنے والے آدی واسیوں اور دیگر پسماندہ طبقات ہوں گے۔
سی اے اے کے خلاف تحریک نے اسے بالکل صحیح طریقہ سے این آر سی سے جوڑ دیا ہے۔ سی اے اے غیرمسلم تارک وطن کو ہندوستانی شہریت عطا کرے گا جبکہ این آر سی خود ساختہ مسلم دراندازوں کو نشانہ بنائے گا۔
نریندر مودی کی حکومت دراصل ملک میں دوسرے درجہ کے شہریوں کا زمرہ تشکیل دینا چاہتی ہے جس کے (بنیادی) حقوق کو تک منقطع کیا جائے گا۔ یہ ضروری ہے کہ مرکز کی مودی حکومت اور بی جے پی کے خفیہ فرقہ وارانہ ایجنڈہ کو ناکام بنایا جائے۔ اس کے لئے این آر سی کو ناکام بنانا اور اس کو نافذ ہونے سے روکنا ضروری ہے۔اہم بات یہ ہے کہ کئی ریاستوں کے چیف منسٹرس (وزرائے اعلیٰ) ان کالے قوانین کو لاگو کرنے سے صریحاً انکار کرچکے ہیں۔ یہاں تک کہ چیف منسٹر بہار نتیش کمار اور چیف منسٹر اڈویشہ نوین پٹنائک جنہوں نے پارلیمنٹ میں سی اے اے کی حمایت کی تھی، انہوں نے این آر سی کو اپنی ریاستوں میں نافذ کرنے سے صریحاً انکار کردیا۔ قبل ازیں کیرلا کے وزیراعلیٰ پنارائی وجیئن اور چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنرجی نے اعلان کیا ہے کہ این آر سی کو درکار اہلکار فراہم نہیں کریں گے۔ این پی آر کو معطل کررہے ہیں۔ اگر مرکزی حکومت کے اعلان کے بموجب این آر سی کا عمل شروع نہیں کیا گیا ہے تو اس (مرکزی حکومت) کو 31 جولائی 2019ء کو جاری کیا گیا۔ اعلامیہ واپس لینا ہوگا تاکہ این پی آر کو اپ ڈیٹ کیا جاسکے۔
پرکاش کرت سی پی آئی (ایم) کے پولیٹ بیورو ممبر ہیں۔