سابق بیورو کریٹس اور جہد کاروں کی مخالفت، کاسٹ اور آدھار کا حصول غیر قانونی، پورٹل پر تفصیلات کے محفوظ رہنے کی کوئی ضمانت نہیں، مستقبل میں تنازعات میں اضافہ کا اندیشہ
حیدرآباد: تلنگانہ کی کے سی آر حکومت کی جانب سے غیر زرعی اثاثہ جات کو آن لائین کرنے سے متعلق مہم نے ریاست بھر میں زبردست تنازعہ کھڑا کردیا ہے ۔ عوام حکومت کے اس فیصلہ سے سخت ناراض ہیں کیونکہ عہدیداروں کی جانب سے دھرانی پورٹل پر غیر زرعی اراضیات اور جائیدادوں کی تفصیلات پیش کرنے کی مہم میں نجی معلومات طلب کی جارہی ہیں۔ ملک میں یہ پہلا موقع ہے جب کسی حکومت میں عوام سے غیر زرعی اثاثہ جات کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے انہیں پورٹل پر رکھنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ عوام کو اس مہم میں شامل کرنے کیلئے چیف منسٹر نے سب سے پہلے اپنے اثاثہ جات کی تفصیلات 10 اکتوبر کو ایراولی موضع میں اپنے فارم ہاؤز میں ولیج سکریٹری کو درج کرائی۔ حکومت نے شہری اور دیہی علاقوں میں غیر زرعی اثاثہ جات کے لئے عوام کو پاس بک جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ سروے کے تحت فارم ہاؤزس ، مکانات ، اپارٹمنٹس کی تفصیلات کے ساتھ ساتھ مالکین اور ان کے افراد خاندان کے بارے میں نجی معلومات اکھٹا کرنے کی مہم جاری ہے ۔ حکومت نے اس مہم کی تاریخ میں توسیع کردی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے علاوہ سابق سیول سرویس عہدیداروں نے اس مہم کی مخالفت کرتے ہوئے حکومت کو مکتوب روانہ کیا ہے ۔
اپوزیشن کا کہنا ہے کہ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے مجوزہ انتخابات میں فائدہ حاصل کرنے کیلئے یہ مہم شروع کی گئی ہے۔ سابق سیول سروینٹس اور جہد کاروں نے چیف سکریٹری سومیش کمار کو مکتوب روانہ کرتے ہوئے سروے کا کام فوری بند کرنے کا مطالبہ کیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سروے شہریوں کے حقوق اور ان کی نجی زندگی کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ سپریم کورٹ میں ستمبر 2018 ء میں آدھار کارڈ کے لزوم کے سلسلہ میں جو احکامات جاری کئے تھے ، انہیں بے خاطر کرتے ہوئے ٹی آر ایس حکومت نے سروے کا کام جاری رکھا ہے ۔ میونسپل کارپوریشن اور دیگر مجالس مقامی کے ملازمین گھر گھر جاکر ایک فارم کی خانہ پری کر رہے ہیں جس میں کئی تفصیلات حاصل کی جارہی ہیں۔ تفصیلات میں جائیداد کی تفصیل کے علاوہ مالک جائیداد کے مذہب اور کاسٹ کے بارے میں سوالات شامل ہیں۔ مالک جائیداد اور افراد خاندان کے آدھار نمبرس طلب کئے جارہے ہیں۔ سروے میں حصہ نہ لینے والے افراد کو دھمکی دی جارہی ہے کہ دھرانی پورٹل میں تفصیلات کی انٹری نہ ہونے کی صورت میں جائیداد کے بارے میں قانونی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں اور مستقبل میں جائیداد کے معاملات میں دشواری ہوگی۔ کانگریس نے الزام عائد کیا کہ حکومت نے 2014 ء میں گھریلو جامع سروے کا اہتمام کیا تھا اور حکومت کے پاس تمام تر تفصیلات پہلے سے موجود ہے۔ بلدی انتخابات سے قبل جاریہ دھرانی سروے حکومت کے درپردہ مقاصد کی تکمیل کیلئے ہے ۔ صدرنشین کانگریس الیکشن کمیشن کوآرڈینیشن کمیٹی ایم ششی دھر ریڈی نے کہا کہ تفصیلات کو جمع کرنے کیلئے کم از کم ایک سال کا وقت لگے گا ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے خلاف عوام میں موجود ناراضگی کو دیکھتے ہوئے جاریہ سروے کی تفصیلات سے انتخابات میں فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے گی ۔ جہد کاروں نے سروے کے سوالات پر کئی اندیشے ظاہر کئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کسی قانونی بنیاد کے بغیر عوام سے نجی معلومات حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ کاسٹ کے اظہار کے لئے قانونی طور پر کسی جائز وجہ کا ہونا ضروری ہے ۔ جائیدادوں اور اراضیات کی تفصیلات پہلے سے محکمہ رجسٹریشن کے پاس موجود ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت کے جامع سروے میں ہر گھر کی تمام تفصیلات حاصل کی گئیں تھیں۔ اب جبکہ کسی وضاحت کے بغیر حکومت نے سروے کا کام شروع کیا ہے ، لہذا عوام میں الجھن پائی جاتی ہے۔ سروے کے سوالات سے عوام مختلف اندیشوں کا شکار ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت بہتر شہری خدمات اور عوام کو سہولتوں کی فراہمی کا منصوبہ رکھتی ہے تو اسے کسی شخص کے مذہب اور کاسٹ کے علاوہ جائیداد کہاں سے حاصل کی گئی ، اس بارے میں پوچھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ فورم فار سٹیزن (FORCE) کے کنوینر ٹی ویویک نے کہا کہ حکومت کی یہ مہم غیر ضروری ہے اور وجوہات کے اظہار کے بغیر بڑے پیمانہ پر سرکاری ملازمین کو اس کام میں جھونک دیا گیا ہے ۔ مسلم تنظیموں کے علاوہ کئی مذہبی شخصیتوں نے حکومت کے سروے کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی ہے ۔ جمیعت العلماء نے سروے پر اعتراض جتایا اور کہا کہ حکومت کو آخر مکانات کے علاوہ ہر شخص کے آدھار نمبر کی کیا ضرورت ہے ۔ 2014 ء کے جامع سروے میں تمام تفصیلات پہلے ہی حاصل کی جاچکی ہیں۔ ایسے وقت جبکہ عوام کو این پی آر کا خوف لاحق ہے، ٹی آر ایس حکومت نے موجودہ سروے کے نام پر عوام کے شبہات میں اضافہ کردیا ہے ۔ بعض افراد اور تنظیموں نے اس مسئلہ پر ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا جس میں سوال کیا گیا کہ حکومت کس اتھاریٹی اور قانون کے تحت عوام سے نجی تفصیلات پوچھ رہی ہے ۔ جی آر کروناکر جو عدالت میں ایک درخواست گزار ہیں، ان کا کہنا ہے کہ کوئی بھی اقدام قانون کے تحت ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا سروے دستور کے کئی دفعات کی خلاف ورزی کرتا ہے ۔ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ دھرانی پوٹل پر درج کیا جانے والے ریکارڈ مستقبل میں محفوظ رہے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ پورٹل پر تفصیلات پیش کرنے سے اراضی کے کئی تنازعات پیدا ہوسکتے ہیں اور ان تفصیلات کا غلط استعمال ممکن ہے۔