۔1992 ء کے بعد ریاست سے جیتنے والے پہلے ڈیموکریٹک امیدوار۔ الیکٹورل کالج میں تا حال 306 ووٹ
واشنگٹن:امریکی صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جوبائیڈن جمعہ کو جارجیا سے بھی جیت گئے ہیں۔جوبائیڈن سال 1992 کے بعد جارجیا ریاست سے جیتنے والے پہلے ڈیموکریٹک امیدوار بن گئے ہیں۔ جوبائیڈن کی اس جیت کے بعد صدارتی عہدے کیلئے ان کی دعوے داری اور مضبوط ہوگئی ہے ۔اس جیت کے بعد جوبائیڈن کے پاس کل 306 الیکٹورل کالج ووٹ ہوگئے ہیں جو 2016 میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو ملے الیکٹورل کالج ووٹ کے برابر ہیں۔ ٹرمپ نے 2016میں ڈیموکریٹک امیدوار ہلاری کلنٹن کے خلاف جیت حاصل کی تھی۔ٹرمپ نے جمعہ کو پہلی بار واشنگٹن میں اقتدار کی تبدیلی کو اپنی اجازت دینے کے اشارے دئے ہیں۔ اس سے پہلے انہوں نے صدارتی انتخابات میں اپنی ہار قبول کرنے اور اقتدار سونپنے سے انکار کردیا تھا۔ مختلف میڈیا کی پیش گوئی کے مطابق امریکی صدر کے لیے منتخب کیے گئے ڈیموکریٹ پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن نے ریاست جارجیا میں بھی کامیابی حاصل کی ہے۔ 1992 کے بعد اس ریاست سے جیتنے والے وہ پہلے ڈیموکریٹک امیدوار ہیں۔اس جیت نے صدرات کے لیے جو بائیڈن کی پوزیشن کو مزید مستحکم کیا ہے اور انھیں ہماری پیشگوئی کے مطابق اب تک الیکٹورل کالج میں کل 306 ووٹ حاصل ہو چکے ہیں۔ الیکٹورل کالج ایک ایسا ادارہ ہے جو صدر کا انتخاب کرتا ہے اور اس کالج کے ارکان جنھیں الیکٹر بھی کہا جاتا ہے، عوام کے ووٹوں سے جیتتے ہیں۔میڈیا کے مطابق ریاست شمالی کیرولینا میں صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے جیتنے کا امکان ہے جس سے انھیں الکیٹورل کالج کے 232 ووٹ حاصل ہو جائیں گے۔یہ پہلا موقع ہے کہٹرمپ نے جنوری میں کسی نئی انتظامیہ کی جانب اشارہ ضرور کیا ہے۔صدر نے جو بائیڈن کا نام نہیں لیا، تاہم انھوں میڈیا کو سوالات کرنے کی اجازت نہیں دی۔جو بائیڈن کی فتح کا اعتراف کرنے اور ایک انتظامیہ سے دوسری انتظامیہ کو اقتدار کی منتقلی کے حوالے سے صدر ٹرمپ پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔یاد رہے وائٹ ہاؤس پہنچنے کی دوڑ میں ان دو امریکی ریاستوں جارجیا اور شمالی کیرولائنا کے نتائج کا انتظار تھا۔بائیڈن کے حاصل کردہ الیکٹورل ووٹوں کی تعداد ہلاری کلنٹن کے خلاف 2006 میں صدر ٹرمپ کے حاصل کردہ ووٹوں کے برابر ہے۔صدر ٹرمپ نے اہم ریاستوں میں قانونی چیلنجوں کا آغاز کیا ہے اور بڑے پیمانے پر انتخابی دھوکہ دہی کے غیر یقینی الزامات عائد کیے ہیں۔ایریزونا میں ان کی ٹیم نے انتخاب کے دن ڈالے جانے والے بیلٹوں کے جائزے کے لیے قانونی چارہ جوئی کا ارادہ ترک کر دیا جس کے بعد یہ واضح ہو گیا کہ ان کے حریف کی برتری یقینی ہے۔