جارحانہ ہندوتوا اور مسلمان

   

محمد نصیرالدین
لفظ ’’ہندو‘‘ کی ابتداء کے بارے میں تاریخ میں کوئی متعین بات یا ثبوت نہیں ملتا، لیکن اس کے باوجود تمام اہل علم اور تاریخ دانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ’’ہندو‘‘ لفظ ویدوں، اپنشدوں اور قدیم سنسکرت اور بالی گرنتھوں میں نہیں ملتا۔ ’’ڈسکوری آف انڈیا‘‘ پنڈت جواہر لعل نہرو کی معروف تصنیف کہی جاتی ہے جس میں اولین وزیراعظم نے لکھا کہ ہمارے پرانے ادب میں تو لفظ ’’ہندو‘‘ کہیں نظر نہیں آتا۔ اس لفظ کا حوالہ جو کسی ہندوستانی کتاب میں ملتا ہے، وہ آٹھویں صدی عیسوی کا ایک تانترک گرنتھ ہے اور وہاں لفظ ہندو کا مطلب کسی خاص مذہب سے نہیں بلکہ خاص لوگوں سے ہے۔ ڈاکٹر ڈی سی سرکار کی مرتب شدہ کتاب “Select Inscription” میں کہا گیا ہے کہ دریائے سندھ کے مغربی اور مشرقی علاقے اور اس کے باشندوں کو ایران کے بادشاہ دارا اور زیرک‘‘ ہندو کے نام سے پکارا کرتے تھے۔ مطالعہ سے یہ بات ثابت ہوتا ہے کہ ہندو لفظ ایرانیوں کا دیا ہوا ہے اور لفظ ہندو گویا کہ فارسی کا لفظ ہے۔
لفظ ’’ہندو‘‘ پر کچھ ہندوؤں اور زیادہ تر آریہ سماجیوں کو اس بات پر اعتراض ہے کہ لفظ ہندو ہماری ذات کو ظاہر نہیں کرتا اور نہ ذات کا مفہوم ادا کرتا ہے کیونکہ سنسکرت کے قدیم ادب میں لفظ ’’ہندو‘‘ نہیں ملتا۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ لفظ ’’ہندو‘‘ دوسروں کا دیا ہوا ہے اور یہ غلامی کی علامت ہے! ایک گروہ کا یہ بھی خیال ہے کہ لفظ ہندو میں کیا رکھا ہے کہ اس سے محبت کی جائے! اور لفظ ہندو کی جگہ پر لفظ ’’آریہ‘‘ اور ہندوستان کی جگہ ’’بھارت‘‘ یا ’’آریہ وت‘‘ کا استعمال کیا جائے۔ آچاریہ ونوبا بھاوے نے ہندو کون ہے، اس کی تفصیل اس طرح بیان کی ہے جو ورنوں اور آشرموں کے نظام کو تسلیم کرے گا، گائے کا خادم ہو، ویدمنتروں کو ماں کی طرح قابل ستائش سمجھنے والا ہو۔ سب مذاہب کا احترام کرنے والا ہو۔ دیوتاؤں اور بتوں کی نافرمانی نہ کرتا ہو۔ پنر جنم کو مانتا اور اس سے نجات کی کوشش کرتا ہو اور جو تمام مخلوقات کے ساتھ مناسب رویہ اختیار کرتا ہو۔ ایسے فرد کو انہوں نے ہندو قرار دیا۔ مہاتما گاندھی نے ہندومت کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے، اگر مجھے ہندومت کی تعریف کرنے کو کہا جائے تو میں صرف یہ کہوں گا کہ یہ غیرتشدد ذرائع سے حق کی تلاش ہے۔ جئے دیال گوئینکا کہتے ہیں: ’’ہمالیہ سے سمندر تک کہ علاقہ کا نام ہندوستان ہے اور اس علاقہ میں بسنے والی قوم کا نام ہندو ہے‘‘۔ “Encyclopedia Guide of Self Education” میں کہا گیا ہے کہ ہندوتوا ایک وسیع معنی لفظ ہے جس میں نہ صرف ہندوؤں کے مذہبی رسوم داخل ہیں بلکہ ان کے سماجی اداروں کا بھی اس میں دخل ہے۔ ’’ہندوتوا‘‘ میں عام طور پر برہمن ازم کو شامل کیا جاتا ہے جوکہ کئی ایک وجوہات کی بناء پر اس کے بہت قریب ہے، لیکن برہمنیت (خالق برہما کا مذہب) کی اپنی شکل توحید والی ہے جبکہ ہندوتوا کی شکل شرک والی ہے۔ پنڈت رام گوند ترویدی نے ہندوتوا کی تعریف یوں کی ہے: ’’ہندوپن کو ہندوتوا کہا جاتا ہے۔ ہندوپن کے اندر ہندو دھرم، ہندو مریادہ، ہندو تہذیب، ہندو تمدن، ہندو روایات اور ہندو فن وغیرہ سبھی آجاتے ہیں۔ ہندوتوا کی شکل اتنی وسیع ہے کہ اس کی حفاظت کیلئے ہندو اپنی جان بھی دینے کو تیار رہیں جو ہندوتوا کی دی ہوئی باتیں مانتے ہیں۔
مہنت دگوجے ناتھ کے مطابق ہندوتوا ایک مثالی بھارتیہ راشٹریہ سماجواد ہے جس نے تمام ہندوستانی سماج کو ایک دھاگہ میں پرولیا ہے۔
بودھ مذہب کے نام پر صرف بودھ مسلک کے ماننے والے آگے بڑھیں گے۔ سناتن دھرم کے نام پر صرف سناتنی آگے بڑھیں گے مگر ہندوتوا کے نام پر سبھی ایک ساتھ آئیں گے اور ان میں سناتنی، سکھ، بودھ، چینی سبھی رہیں گے۔
اوپری سطروں میں ہندوتوا کی تعریف مختلف ہندو دانشوروں اور اسکالرس کے خیالات کی مدد سے رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
مذکورہ ہندوتوا کی تشریحات میں کہیں بھی تشدد، زیادتی، قتل و خون ریزی یا انتہا پسندی اور دیگر مذاہب والوں کے ساتھ منافرت کا ذکر نہیں ملتا۔ لیکن جدید ہندوستان میں ’’ہندوتوا‘‘ ایک جارحانہ، انتہا پسندانہ اور پرتشدد فکر و عمل کے غماز کے طور پر ابھرا ہے۔ ’’ہندوتوا محض ایک مذہبی گروہ کا نام نہیں رہا بلکہ ’’ہندوتوا‘‘ کے علمبرداروں نے ہندوتوا کو ایک سیاسی اور ثقافتی نظریہ کو طور پر پیش کیا ہے جس کا مقصد ہندوستان کو ایک ہندو راشٹر میں تبدیل کرنا ہے۔ ہندوتوا کی اس جدید تشریح اور نظریہ نے ملک میں دیگر مذاہب کے خلاف نفرت اور تعصب کو جنم دیا ہے۔ گنگا جمنی تہذیب اور آپسی بھائی چارہ کو ختم کردیا ہے اور ملک کے امن، چین اور سکون کو غارت کردیا ہے جس کی وجہ سے ملک میں انتشار و افتراق اور خون ریزی کا بازار گرم ہوگیا ہے۔ اس بدلتے منظر نامے نے ملک میں ہندوؤں کے اندر ہندو ۔ ہندو بھائی بھائی کی لہر پیدا کی ہے اور مذہب کی بنیاد پر ہندوؤں میں اتحاد کا نعرہ دیا ہے۔ اس تصور کو سب سے پہلے 1923ء میں ونائیک دامودر ساورکر نے اپنی کتاب ’’ہندوتوا، ہندو کون؟‘‘ میں پیش کیا۔ ساورکر کے مطابق ’’ہندوتوا‘‘ صرف مذہب نہیں بلکہ قوم، نسل اور تہذیب کا مشترکہ تصور ہے۔ ساورکر کے اس تصور کو لے کر آر ایس ایس وجود میں آئی۔ اپنی نفرت پر مبنی تصورات کو لے کر RSS نے ملک کی تقسیم کو تک گوارا کیا اور ہندوراشٹر کے ادھورے خواب کو لے کر وہ اپنے سیاسی بازو BJP کو لے کر ابھی بھی سرگرم ہے۔
رام مندر گؤرکشا Love Jihad یکساں سیول کوڈ، آرٹیکل 370 اور تبدیلی مذہب پر پابندی جیسے موضوعات کو خوب گرمایا اور معصوم اذہان میں نفرت کا زہر گھول کر اقتدار پر قابض ہوگئے۔ گرچہ ان کے تمام موضوعات دستور ہند میں دیئے گئے حقوق کے سراسر خلاف ہے اور سکیولر آئین کی دھجیاں بکھیرتے ہیں لیکن اقتدار کے نشہ میں بدمست اہل اقتدار نفرت و تعصب کے راستہ پر برابر بڑھے جارہے ہیں۔ ہندوتوا کے علمبرداروں نے اقتدار کی کرسی سے درج ذیل منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں۔
(1) تعلیمی نصاب میں تبدیلی کرتے ہوئے جدید نسل کے اذہان میں مسلم حکمرانوں کے خلاف غم و غصہ پیدا کیا جایئے۔ ہندوتوا فلسفہ اور شخصیات کو نمایاں کیا جائے۔ (2) مسلمانوں اور عیسائیوں کو گھر واپسی کے نام پر ہندو دھرم میں واپس لانا، لو جہاد کا نعرہ لگانا، ہندو لڑکوں کا مسلم اور عیسائی لڑکیوں سے شادی کرنا اور انہیں ہندو بنانا (3) گؤرکشک کے نام پر مسلم قوم میں خوف و ہراس کی نفسیات پیدا کرنا تاکہ وہ ڈر و خوف میں تبدیلی مذہب پر آمادہ ہوجائیں (4) ریاستی و مرکزی حکومتوں پر قبضہ کرنا تاکہ NRC، CAA اور UCC کا نفاذ ہو(5) لاکھوں شاکھاؤں کے ذریعہ نئی نسل کو انتہا پسند ہندو گروہ میں تبدیل کرنا (6) میڈیا اور سوشیل میڈیا کے ذریعہ منظم انداز میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنا (7) ہندو ایکتا اور ہندو راشٹر کے نام پر Polarisation کرنا اور اقتدار پر بنے رہنا، ایسے میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو خاص طور پر ہندوتوا کے جارحانہ عزائم کے مقابلہ میں حکمت و ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اگر انہوں نے تھوڑی سی بھی غفلت برتی تو انہیں اپنے دین و مذہب سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا!! ہندوستانی مسلمانوں کیلئے کسی قدر اطمینان کی بات یہ ہے کہ دستور ہند اور آئین کے Preamble میں ہندوستان کو ایک سکیولر ریاست قرار دیا گیا ہے۔ دوسرے یہ کہ آرٹیکل 25-28 کسی بھی مذہب کو اختیار کرنے، عمل کرنے اور تبلیغ کرنے کی آزادی دیتے ہیں۔
دوسری طرف مسلمانوں کو اپنی شناخت اور مذہب پر قائم رہنے کیلئے درج ذیل اقدامات کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ (1) نئی نسل کو دین کا صحیح شعور دینے کے علاوہ بھی مسلمان بنانے کی کوشش کریں۔ (2) صحیح تاریخ سے آگاہ کرانے کی کوشش ہونی چاہئے (3) ہندو سماج کی بااثر اور انصاف پسند شخصیات کو لے کر حق و انصاف کی آواز بلند کرنے اور آئین کے سکیولر کردار کو باقی رکھنے کی سعی کرنا چاہئے۔ (4) اپنے انفرادی یا اجتماعی عمل سے فرقہ پرستی، نفرت اور تعصب کو دور رکھنا چاہئے۔ (5) قانونی و دستوری حقوق سے ہر فرد کو واقف کروایا جائے اور ان کی حفاظت کیلئے قانونی و دستوری جدوجہد کیلئے قانون دانوں کو تیار کرنا ہوگا۔ (6) سیاسی میدان میں اپنی بے وزنی کو ختم کریں اور اتحاد و اتفاق سے کم از کم ایک چوتھائی اسمبلی و پارلیمنٹ میں حصہ داری کو یقینی بنائیں۔ (7) میڈیا اور سوشیل میڈیا میں اسلام و مسلمانوں کے خلاف پھیلائی جارہی غلط فہمیوں کا موثر جواب دینے کیلئے منظم منصوبہ بندی کا اہتمام ضروری ہے۔ (8) سیول سرویسیس میں حصہ داری کو لے کر فکرمندی اور منصوبہ بندی بھی کی جانی چاہئے۔ (9) برادران وطن سے جتنا ممکن ہو خوشگوار تعلقات پیدا کریں اور (10) نفرت و تعصب پھیلانے والے افراد سے خیرسگالی ملاقاتوں کا مسلسل اہتمام کیا جائے۔ جارحانہ ہندوتوا اور جدید ہندوتوا کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے کیلئے مذکورہ اُمور پر صحیح انداز میں توجہ مرکوز کی جائے تو انشاء اللہ ملک میں ہندوتوا کی لہر کو قابو میں کیا جاسکے گا۔
باطل جو صداقتوں سے الجھتا ہے تو الجھے
ذرّوں سے یہ خورشید بجھا ہے نہ بجھے گا