جاروب کش عملہ کی من مانی، رقم کی وصولی کا حساب نہیں

   

متعدد شکایتوں کے باوجود جی ایچ ایم سی خاموش تماشائی

حیدرآباد۔28 نومبر(سیاست نیوز) شہر میں جاروب کش عملہ اور کچہرے کی نکاسی کرنے والو ںکی جانب سے کی جانے والی وصولی کا کوئی حساب نہیں ہے اور من مانی وصولی کے خلاف متعدد شکایات کے باوجود مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد کے عہدیدارو ں کی جانب سے اختیار کردہ خاموشی کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا رہاہے کہ بلدی عہدیداروں نے ہی کچہرے کی نکاسی کرنے والے اور جاروب کش عملہ کی نگرانی کرنے والے عملہ کو من مانی کی چھوٹ دے رکھی ہے۔ دونوں شہروں کے کئی علاقو ںمیں روزانہ کے اساس پر اب تک کچہرے کی نکاسی نہ کئے جانے کی شکایات موصول ہوا کرتی تھیں لیکن اب بیشتر علاقو ںمیں روزانہ جاروب کشی بھی نہیں کی جا رہی ہے بلکہ کئی علاقو ںمیں ہفتہ میں صرف ایک بار جاروب کشی کی جا رہی ہے جو کہ انتہائی افسوسناک ہے۔ شہر کے گل محلوں میں صفائی نہ کئے جانے کی شکایات منتخبہ عوامی نمائندوں سے کئے جانے پر وہ متعلقہ صفائی عملہ کو ہدایات دے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود صفائی عملہ کی جانب سے توجہ نہ دیئے جانے کے علاوہ ان کی ہدایات کو نظر انداز کیا جا رہاہے ۔ شہر کے ان محلہ جات اور علاقوں میں جاروب کش و کچہرے کی نکاسی روزانہ کے اساس پر انجام دی جا رہی ہے جن علاقو ںمیں مکینوں کی جانب سے جاروب کش عملہ کے مطالبات پورے کئے جاتے ہیں اور ان کی جانب سے طلب کردہ رقومات ادا کی جاتی ہیں۔ زونل کمشنر ساؤتھ زون جی ایچ ایم سی کے حدود میں موجود محلہ جات کی حالت انتہائی ابتر ہے اور ان علاقو ںمیں صفائی نہ کئے جانے کی شکایت پر کہا جا رہاہے کہ عملہ کی قلت کے سبب روزانہ کے اساس پر صفائی ممکن نہیں ہوپا رہی ہے جبکہ مخصوص علاقوں میں روزانہ صفائی اور کچہرے کی نکاسی عمل میں لائی جاتی ہے ۔ دونوں شہروں حیدرآباد وسکندرآباد میں عہدیداروں کی جانب سے کنٹراکٹرس کو اس بات کی ہدایات دی جا رہی ہے کہ وہ محلہ جات میں کم از کم ایک دن کے وقفہ سے جاروب کشی کو یقینی بنائیں لیکن ایسا نہیں کیا جا رہاہے اور مہینہ میں 10 دن بھی جاروب کشی کا عمل نہیں ہوپا رہا ہے لیکن اس کے باوجود جاروب کش عملہ کے علاوہ کچہرے کی نکاسی کرنے والے آٹو ڈرائیورس کی جانب سے ماہانہ 200تا300 روپئے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اور جو لوگ ان کا یہ مطالبہ پورا نہیں کر رہے ہیں ان کے کچہرے کو وہ ہاتھ نہیں لگارہے ہیں جس کی وجہ سے شہری ان مقامات پر کچہرے کے انبار لگا رہے ہیں جہاں سابق میںکچہرے کی کنڈی ہوا کرتی تھی۔م