جاسوسی سافٹ ویر :60 خواتین بھی نشانہ

   

سُکنیا شانتا
پیگاسس جاسوسی سافٹ ویئر کے ذریعہ عالمی سطح پر 50 ہزار سے زائد اہم شخصیتوں کی جاسوسی کی گئی یا ان کے نام نگرانی کئے جانے والے نمبرات میں شامل کئے گئے۔ ہندوستان میں بھی بے شمار مرد و خواتین کے موبائیل فونس کی اس جاسوسی سافٹ ویر کے ذریعہ جاسوسی کی گئی اور یہ دیکھا گیا کہ وہ کس سے بات کررہے ہیں؟ کیوں بات کررہے ہیں؟کیا بات کررہے ہیں؟ کس قسم کے پیامات کا تبادلہ عمل میں آرہا ہے؟ کہاں جارہے ہیں، ان کی سرگرمیاں کیا ہیں، رقمی لین دین کس سے کررہے ہیں اور اس کی قدر کیا ہے۔ اس طرح کی سب کچھ معلومات جمع کی گئی۔ خاص طور پر ہندوستان میں جس ایجنسی نے پیگاسس اسپائی ویر استعمال کیا ہے، اس کے ڈیٹا کا افشاء ہوا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ 60 سے زائد خواتین ان نمبرات میں شامل ہیں حالانکہ ہندوستان میں خواتین کو بااختیار بنانے کے ڈھیر سارے دعوے کئے جاتے ہیں۔ جن 60 سے زائد خواتین کے موبائیل فون کی نگرانی کی گئی یا ان کے نام امکانی نگرانی والی فہرست میں شامل کئے گئے۔
واضح رہے کہ عالمی سطح پر 50 ہزار سے زائد لوگوں کی جاسوسی کئے جانے کا انکشاف ہوا ہے اور ان 50 ہزار نمبرات تک فرانس کے ایک غیرمنفعت بخش ادارہ ’’فاربڈن اسٹوریز‘‘ اور ’’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘‘ کو رسائی حاصل ہوئی اور اس نے دنیا بھر کے 16 صحافتی تنظیموں یا اداروں کے ساتھ شیئر کیا۔ نتیجہ میںہندوستان ، فرانس اور دنیا بھر کے مختلف مقامات پر ایک سیاسی و سفارتی طوفان کھڑا ہوگیا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ انفرادی پرائیوسی اور خاص طور پر خواتین پر اس جاسوسی سافٹ ویئر کے اثرات کے بارے میں بہت کم توجہ مرکوز کی گئی۔ پیگاسس سے متاثرہ فون میں جاسوسی سافٹ ویئر کو نہ صرف پیامات، تصاویر اور ای میل تک رسائی حاصل ہوجاتی ہے بلکہ یہ جاسوس بہ آسانی فون پر ہونے والی گفتگو بھی خود میں ریکارڈ کرسکتا ہے۔ مینال گاڈلنک کے مطابق میرا فون میرے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے، میں اسے ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتی ہیں یہاں تک کہ اپنے بیڈروم میں بھی۔ مینال گاڈلنک کے شوہر سریندر گاڈلنک ناگپور کے مشہور و معروف فوجداری وکیل ہیں، انہیں جون 2018ء میں ایلگار پریشد کیس کے ضمن میں گرفتار کیا گیا۔ پیگاسس پراجیکٹ شروع کئے جانے سے چند دن قبل ہی مینال گاڈلنک کو امریکہ کی ڈیجیٹل فارنسک فرم ’’آرسینل کنسلٹنگ‘‘ نے اس بات سے آگاہ کیا کہ ان کے شوہر کے لیاپ ٹاپ سے بھی چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔ مینال گاڈلنک کہتی ہیں کہ یہ ایسے ہی ہے جیسے چاروں طرف سے بمباری کی جائے یا بمبوں کی بارش ہو اور ہر طرف سے ہمارے ڈیٹا اور زندگیوں کو چھیننے کی کوششیں ہوں۔
جس ڈیٹا بیس کا افشاء ہوا ہے، اس میں اشارہ دیا گیا ہے کہ سریندر گاڈلنک کے معاون وکیل نیہال سنگھ راتھوڑ کا فون نمبر بھی امکانی نگرانی کی فہرست میں شامل کیاگیا۔ یہ 2018ء کے اوائل کی بات ہے۔ اس سے چند مہینے پہلے ہی ان کی شادی ہوئی تھی۔ نیہال سنگھ راتھوڑ کی اہلیہ شالینی کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر کو جان بوجھ کر اس طرح کے پاگل پن میں کھینچا گیا۔ مجھے پہلے ہی سے لگ رہا تھا کہ کوئی ہمارا تعاقب کررہا ہے۔ افشاء شدہ ڈیٹا بیس سے یہ بھی پتہ چلا کہ سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی پر جنسی ہراسانی کے الزامات عائد کرنے والی سپریم کورٹ کی سابق ملازمہ اور ان کے ارکان خاندان کے 11 نمبرات بھی امکانی نگرانی والی فہرست میں شامل ہیں۔ قبائیلیوں کے حقوق کی جہد کار سونی سوری کا نام بھی اس فہرست میں شامل تھا۔ حد تو یہ ہے کہ ان 60 سے زائد خواتین میں جو اُس وقت کم عمر تھی، اس کی بھی نگرانی کیلئے اس کے فون کو نشانہ بنایا گیا۔ ویریندا بھنڈاری نامی دہلی میں کام کرنے والی خاتون وکیل جن کا نام فہرست میں شامل نہیں، ان کا کہنا ہے کہ جاسوسی کی یہ حرکت جسمانی استحصال ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں 2017ء کے ایک سپریم کورٹ فیصلے کا حوالہ بھی دیا اور بتایا کہ جسٹس کے ایس پٹا سوامی بمقابلہ یونین آف انڈیا مقدمہ میں سپریم کورٹ کی ایک 9 رکنی بینچ نے متفقہ طور پر اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ حق پرائیویسی میں ذہن اور جسم کی شخصی خودمختاری بھی شامل ہے اور یہ صرف معلوماتی پرائیویسی تک محدود نہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پیگاسس استعمال کرتے ہوئے جو کچھ کیا گیا ہے، وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کی دفعہ 69 کے تحت قانونی طور پر دی گئی اجازت سے بالکل مختلف ہے۔ ڈاکٹر انجا کوویکس اپنی جینڈرنگ سرویلنس ویب سائٹ لکھتی ہے کہ صنفی نگرانی کرتے ہوئے ہم نگرانی کے نقصانات کو گھر میں لا رہے ہیں۔ یہ بڑی بُری بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں اور کہیں پر بھی خواتین کی طویل عرصہ سے نگرانی کی جارہی ہے اور اس عمل سے تمام ذات پات، مذاہب کے ماننے والی اور امیر غریب تمام خواتین متاثر ہیں۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ حالیہ برسوں کے دوران نریندر مودی کی زیرقیادت بی جے پی حکومت نے ڈیجیٹل انڈیا پہل پر بہت زور دیا ہے۔ ہندوستان میں 95% انٹرنیٹ کا استعمال، موبائل فون کے ذریعہ ہوتا ہے اور ہندوستانیوں کا انحصار مسلسل موبائیل فون پر بڑھتا جارہا ہے، لیکن جب بعض آلات (موبائیل فونس) کسی فرد کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں تو یہ بہت خطرناک رجحان ہے۔ ٹیکنالوجی کے شعبہ کی خاتون وکیل مشی چودھری جو sflc.in نامی قانونی تنظیم کی بانی بھی ہے، ان کا کہنا ہے کہ ہم موبائیل فون کے ذریعہ آن لائن بینکنگ بھی کرتی ہیں، لیکن اس طرح کے جاسوسی سافٹ ویئر فونس میں ڈال دیئے جائیں تو پھر ہر راز اور پاس ورڈس یا کوڈس تک سائبر حملہ آوروں کو رسائی حاصل ہوگی۔ یہ دراصل ہمارے وقار و حرمت پر حملہ ہے۔