جامعہ ملیہ طالب علم محمد رضی انور کا روزانہ 18 گھنٹے احتجاج

,

   

شہریت قانون کیخلاف طلباء کے اندر غم و غصہ میں اضافہ ، 15 ڈسمبر کے تشدد پر دہلی پولیس کے خلاف ایف آئی آر پر زور

نئی دہلی۔ 16 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج میں دن بہ دن شدت پیدا ہونے کے ساتھ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء 15 ڈسمبر کے تشدد پر دہلی پولیس کے خلاف ایف آئی آر درج کراتے ہوئے عدالت سے رجوع ہوئے ہیں۔ یونیورسٹی کے حکام نے یہ بات بتائی۔ یہ مسئلہ عاملہ کونسل کے ہنگامی اجلاس میں کیا گیا۔ یونیورسٹی کے ترجمان احمد عظیم نے کہا کہ دہلی کی عدالت میں تعزیرات ہند کی الف 156(3) کے تحت ایک درخواست داخل کی جائے گی۔ جامعہ کے امتحانات کی نئی تاریخ کا بھی بہت جلد اعلان کیا جائے گا۔ 15 ڈسمبر کو پولیس نے مبینہ طور پر یونیورسٹی میں گھس کر طلباء کو زدوکوب کیا تھا۔ لائبریری میں خاموشی سے مطالعہ کرنے والے طلبہ پر ٹوٹ پڑی تھی اور انہیں بیرونی قرار دیا تھا۔ کیمپس کے باہر مخالف سی اے اے احتجاج کے دوران پولیس نے کیمپس کے اندر گھس کر ہنگامہ آرائی کی تھی۔ اس سلسلے میں قومی انسانی حقوق کمیشن نے 52 طلباء کے بیانات کو ریکارڈ کیا ہے۔ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ملک بھر میں دن رات احتجاجی مظاہروں کے درمیان جامعہ ملیہ السلامیہ کے ایک طالب علم اس وقت سرخیوں میں ہے۔ طالب علم محمد رضی انور گزشتہ 32 دن کے احتجاجی مظاہرہ کررہے ہیں۔ پی ایچ ڈی کررہے محمد رضی انور مولانا محمد علی مارگ پر تقریباً 17 سے 18 گھنٹے روزانہ کھڑے رہتے ہیں۔ صبح 11 بجے دن وہ احتجاج کرنے آجاتے ہیں اور رات 3 تا 4 بجے تک سڑک پر کھڑے رہتے ہیں۔ بہار کے ضلع اوریہ سے تعلق رکھنے والے محمد رضی انور کا کہنا ہے کہ ہمارے لیڈروں کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ انہوں نے جو قانون بنایا ہے، وہ دستور کے بنیادی پریئمبل اور دستور میں دیئے گئے بنیادی حقوق کے مغائر ہے۔ انور کا کہنا ہے کہ ان کا احتجاج 15 ڈسمبر کو جامعہ ملیہ السلامیہ کے احاطہ میں پولیس کے ذریعہ لائبریری میں گھس کر کی گئی طلباء کی پٹائی کے بعد سے شروع ہوا۔ وہ طلباء پر پولیس کے حملے کے بعد شدید تناؤ کا شکار ہوئے ہیں۔ طلباء پر پولیس اس قدر وحشیانہ انداز میں ٹوٹ پڑی کہ گویا یہ طلباء دہشت گرد یا غنڈے ہیں۔ اس طرح طلباء کے ساتھ پولیس نے مجرموں جیسا سلوک کیا۔ طلباء کی پریڈ کروائی گئی۔ اس دن وہ لائبریری کے اوپر والے ریڈنگ روم میں تھے جہاں پر ریسرچ اسکالر پڑھائی کرتے ہیں۔ وہ بھی پولیس کی زد میں آگئے تھے۔ وہ یو پی ایس سی کی تیاری کررہے ہیں۔ وہ اپنا احتجاج اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک حکومت شہریت قانون جیسے کالے قانون کو واپس نہیں لے لیتی۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ پر تشدد اور پولیس کے وحشیانہ رول کے بعد سے پورے ملک میں احتجاجی سلسلہ جاری ہے۔ تشدد کے بعد جامعہ ملیہ السلام کا دورہ کرنے والے کئی قائدین نے پولیس کارروائی کی مذمت کی ہے۔ جامعہ کی وائس چانسلر نجمہ اختر نے طلباء کو تیقن دیا تھا کہ پولیس کارروائی کے خلاف ایف آئی آر درج کروایا جائے گا۔