لکھنؤ، حیدرآباد، ممبئی، کولکتہ، چینائی اور بنارس میں احتجاجی مظاہرے، خاطی پولیس عملہ کیخلاف سی بی آئی کارروائی کا مطالبہ
نئی دہلی 16 ڈسمبر (سیاست ڈاٹ کام) نئے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف گزشتہ روز جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس ایکشن کے خلاف پورے ملک میں شدید برہمی پیدا ہوگئی ہے۔ طلبہ کے خلاف پولیس کی کارروائی کے بعد لکھنؤ سے حیدرآباد اور ممبئی سے چینائی، یوپی، پٹنہ اور ملک کے تقریباً تمام یونیورسٹیز میں طلبہ نے پولیس کارروائی کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے اور پولیس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ پیر کی صبح دہلی کی سڑکوں پر ہزاروں طلبہ نے احتجاجی مارچ نکالا اور جامعہ لائبریری اور طلبہ کیمپس میں کئے گئے پولیس بربریت کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے نعرے لگائے۔ احتجاجی طلبہ نے یونیورسٹی کیمپس میں بغیر اجازت داخل ہونے کی بھی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ صورتحال کو دیکھتے ہوئے پورے ملک کی یونیورسٹیز میں پولیس کو تعینات کردیا گیا ہے۔ دہلی یونیورسٹی کے طلبہ نے امتحانات کا بائیکاٹ کرتے ہوئے نارتھ کیمپس میں آرٹس فیکلٹی کے پاس احتجاج کیا اور جامعہ ملیہ کے طلبہ کے ساتھ اظہار یگانگت کیا۔ اِسی دوران لکھنؤ کے ندوہ کالج میں بھی ہزاروں طلبہ بطور احتجاج جمع ہوگئے اور ’آواز دو ہم ایک ہیں‘ کے نعرے لگائے۔ تاہم پولیس نے احتجاجی طلبہ کو کیمپس سے باہر نکلنے سے روک دیا۔ اترپردیش کے ڈائرکٹر جنرل پولیس او پی سنگھ نے کہاکہ ندوۃ العلماء کے طلبہ احتجاج کرنے کی کوشش کررہے تھے اور اُنھوں نے پولیس پر سنگباری بھی کی۔ تاہم پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے اُنھیں گیٹ کے اندر ہی محدود کردیا۔ اِسی طرح حیدرآباد کے مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی کے طلبہ نے بھی احاطہ یونیورسٹی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ کے ساتھ اظہار یگانگت کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرے منعقد کئے اور امتحانات ملتوی کردینے کا مطالبہ کیا۔ جبکہ بنارس ہندو یونیورسٹی (بنارس) اور جادھو یونیورسٹی (کولکتہ) نے بھی جامعہ ملیہ کے طلبہ کے ساتھ پولیس بربریت کے خلاف احتجاج کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پولیس کی غنڈہ گردی کے خلاف فوری کارروائی کرے۔ بنارس ہندو یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہاکہ گزشتہ روز جامعہ ملیہ میں پولیس نے جس طرح بربریت اور ظلم کا مظاہرہ کیا ہے اِسے کریک ڈاؤن کہنا انتہائی چھوٹا لفظ ہے۔ درحقیقت جو واضح طور پر غنڈہ گردی ہے۔ جس کا ثبوت سوشل میڈیا پر موجود مختلف تصاویر اور ویڈیوز سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنس ممبئی میں بھی طلبہ نے پولیس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے شرم شرم کے نعرے لگائے۔ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی مدراس میں بھی بڑے پیمانہ پر پولیس کے خلاف مظاہرے دیکھنے کو ملے۔ پولیس کارروائی کے خلاف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی زبردست برہمی دیکھی گئی جہاں پر تقریباً 60 برہم طلبہ احتجاج کے دوران شدید زخمی ہوگئے۔ یہاں پر انتظامیہ نے 5 جنوری تک علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کو تعطیل دے دی ہے۔ جواہرلال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے طلبہ بھی جامعہ ملیہ کے احتجاج میں شامل ہوگئے ہیں۔ اِس طرح ملک کے تقریباً تمام یونیورسٹیز کے طلبہ نے جامعہ ملیہ میں پولیس ظلم کے خلاف شدید صدائے احتجاج بلند کیا ہے۔ اِسی دوران جامعہ ملیہ کے کئی ایک طلبہ مجبوراً اپنے گھروں کو واپس لوٹ گئے ہیں جبکہ کئی ایک برہم طلبہ برہمی کے عالم میں انقلاب زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے محدود پیمانہ پر آج بھی احتجاجی مارچ نکالے اور خاطی پولیس عہدیداروں کے خلاف سی بی آئی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ اِس موقع پر چند طالبات میڈیا سے اپنے حالات بیان نہ کرنے کا مشورہ دیتی ہوئی نظر آئیں۔ تاہم جب حنظلہ نامی ایک طالبہ گزشتہ رات کی روئیداد سناتے ہوئے اپنے پاؤں پر لگے زخم میڈیا کو بتایا تو ساتھی طالبات بے اختیار پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں اور پولیس بربریت کے خلاف نعرہ بازی کی۔
