کرناٹک کے شری رنگاپٹن کی مسجد سے مدرسہ خالی کرانے ہائی کورٹ میں درخواست
بنگلورو :کرناٹک کی مشہور شری رنگا پٹن جامع مسجد میں جاری مدرسہ کو لیکر تنازعہ پیدا ہو گیا ہے۔ مفاد عامہ کی ایک درخواست کرناٹک ہائی کورٹ میں داخل کی گئی ہے جس میں اس تاریخی جامع مسجد کو محفوظ یادگار ظاہر کرتے ہوئے اس میں مدرسہ چلائے جانے کو غلط بتایا گیا ہے۔ اس درخواست میں مسجد احاطہ کو خالی کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ اس درخواست پر مرکزی حکومت نے بھی کرناٹک ہائی کورٹ میں اپیل کی ہے کہ وہ کرناٹک حکومت کو مدرسہ خالی کرانے کی ہدایت دے۔دراصل ابھشیک گوڑا نامی ایک شخص نے کرناٹک ہائی کورٹ میں یہ مفاد عامہ عرضی داخل کی ہے جس میں جامع مسجد میں ناجائز طریقے سے مدرسہ چلائے جانے کا الزام عائد کیا گیا اور عدالت سے اسے بند کرانے کا مطالبہ کیا۔ یہ عرضی کرناٹک ہائی کورٹ کے چیف جسٹس این وی انجاریا کی صدارت والی ڈویژن بنچ کے سامنے سماعت کے لیے پہنچی۔ سماعت کے دوران مرکزی حکومت کی طرف سے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کے۔ اروند کامت عدالت میں پیش ہوئے۔ کامت نے دلیل دی کہ جامع مسجد کو 1951 میں محفوظ یادگار کی شکل میں نامزد کیا گیا تھا۔ ایسے میں وہاں مدرسہ چلانا ناجائز ہے۔ کامت نے ہائی کورٹ سے گزارش کی کہ وہ کرناٹک حکومت اور مانڈیا ضلع انتظامیہ کو مدرسہ خالی کرانے کی ہدایت دے۔اس معاملے میں وقف بورڈ نے درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے بتایا کہ مسجد وقف بورڈ کی ملکیت ہے اور وہاں مدرسہ چلایا جائے یا نہیں اس پر بورڈ کا اختیار ہے۔ ہائی کورٹ میں معاملے کی سماعت کے دوران ریاستی حکومت اور وقف بورڈ کے وکیل نے اپنی بات رکھی۔ کرناٹک حکومت اور وقف بورڈ کے وکیلوں کا کہنا ہے کہ 1963 میں وقف بورڈ کو اس ملکیت کے مالکانہ حق کی منظوری دی گئی تھی۔ ایسے میں وہاں مدرسہ کا انتظام و انصرام پوری طرح سے جائز ہے۔ فریقین کی باتیں سننے کے بعد بنچ نے معاملے کی آئندہ سماعت کیلئے 20 نومبر کی تاریخ مقرر کر دی۔