’’جامع مسجد پاکستان میں نہیں ہے‘‘: عدالت

,

   

۔l بھیم آرمی سربراہ کی گرفتاری پر پولیس رویہ کی سرزنش l الزامات کے ثبوت پیش کرنے کی ہدایت ۔ آج پھر سماعت
نئی دہلی 14 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) دہلی کی عدالت نے بھیم آرمی کے صدر چندرشیکھر آزاد کے خلاف ثبوت پیش کرنے میں ناکامی پر پولیس کی سرزنش کی اور کہاکہ لوگ اس لئے سڑکوں پر نکل آئے کیوں کہ جو کچھ پارلیمنٹ میں کہا جانا تھا وہ نہیں کہا گیا۔ ایڈیشنل سیشن جج کامنی لاو نے کہاکہ پولیس ایسا برتاؤ کررہی تھی جیسے جامع مسجد پاکستان میں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو بھی کوئی بھی پرامن احتجاج کرسکتا ہے۔ محترمہ جج نے یہ بھی کہاکہ پاکستان کبھی غیر منقسم ہندوستان کا حصہ تھا۔ جج نے چندرشیکھر آزاد کی درخواست ضمانت کی سماعت کے دوران ان تاثرات کا اظہار کیا۔ بھیم آرمی کے صدر چندرشیکھر آزاد کو قدیم دہلی کے دریا گنج علاقہ میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے موقع پر گرفتار کیا گیا تھا۔ عدالت نے کہاکہ عوام کو اپنے خیالات کے اظہار کا حق حاصل ہے لیکن ہم اپنا ملک تباہ نہیں کرسکتے۔ عدالت نے تحقیقات کرنے والے آفیسر سے کہاکہ تمام ثبوت اور شواہد آن ریکارڈ پیش کریں جن میں یہ ظاہر ہو کہ چندرشیکھر آزاد مبینہ طور پر جامع مسجد کے پاس اشتعال انگیز تقریر کررہے تھے اور یہ بتایا جائے کہ وہاں عوام کا اجتماع غیر دستوری تھا۔ عدالت نے مقدمہ کی آئندہ سماعت چہارشنبہ تک ملتوی کردی۔

سماعت کے دوران پولیس نے عدالت کو بتایا کہ ان کے پاس مجمع کی ڈرون کیمرے سے لی گئی تصاویر ہی بطور ثبوت موجود ہیں اس کے علاوہ کوئی ریکارڈنگ نہیں ہے۔ اس پر جج نے کہاکہ دہلی پولیس کیا اتنی پچھڑی ہوئی ہے کہ اس کے پاس ریکارڈ کرنے کے لئے کوئی آلات نہیں ہیں۔ جج نے زور دے کر کہاکہ کوئی ایسی چیز یا کوئی ایسا قانون دکھایا جائے جو اس مجمع کو اور لوگوں کے وہاں جمع ہونے کو روکتا ہے؟ عدالت نے یہ بھی استفسار کیاکہ تشدد کہاں ہے؟ کون کہتا ہے کہ آپ احتجاج نہیں کرسکتے۔ آپ نے دستور پڑھا ہے؟ احتجاج کرنا ہر کسی کا دستوری حق ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہاکہ جو قانون کی ڈگری رکھتا ہے، عدالتوں کے اندر احتجاج کرسکتا ہے۔ یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی فلاسفی پر چندرشیکھر آزاد کیشاید مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ چندرشیکھر آزاد شاید امبیڈکر کے اُصولوں پر چلنے والے ہیں۔ ڈاکٹر امبیڈکر مسلمانوں اور سکھوں سے زیادہ قریب تھے اور بنیادی طور پر سماج کے دبائے ہوئے طبقات کے قریب تھے۔ عدالت کا یہ احساس ہے کہ وہ اپنی نوعیت کے ایک باغی تھے۔ چندرشیکھر آزاد شاید اس سے متعلق مبہم نظریہ رکھتے ہیں جو کچھ وہ کہنا چاہتے ہیں وہ شاید اپنی بات رکھنے کے موقف میں نہیں ہیں۔ آپ اگر کوئی مسئلہ اُٹھاتے ہیں تو آپ اس پر اپنی تحقیق کریں اور شاید وہ یہاں نہیں ہورہی ہے۔ آزاد کی ضمانت کی درخواست ایڈوکیٹ محمود پراچا نے داخل کی تھی اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ ایف آئی آر میں چندرشیکھر آزاد کے خلاف جو بھی الزامات عائد کئے گئے ہیں ان کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ چندرشیکھر آزاد کی تنظیم نے 20 ڈسمبر کو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پولیس کی اجازت کے بغیر جامع مسجد سے جنتر منتر تک احتجاجی مارچ کا اعلان کیا تھا۔ اس سلسلہ میں گرفتار دیگر 15 افراد کو عدالت نے 9 جنوری کو ضمانت دے دی تھی۔