جاوید اختر کے نغمے موسیقی کی دنیا میں اپنا جلوہ بکھیر رہے ہیں

   

ممبئی 16 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) تقریبا تین دہائیوں سے اپنے نغموں سے موسیقی کی دنیا کو شرابور کرنے والے عظیم شاعر اور نغمہ نگار جاوید اختر کے رومانی نغمے آج بھی لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں جنہیں سن کر سامعین کے دل سے بس ایک ہی آواز نکلتی ہے “جب چھائے تیرا جادو کوئی بچ نہ پائے ’’۔سال 1981 میں ہدایت کار یش چوپڑا پنی نئی فلم ‘سلسلہ’ کیلئے نغمہ نگار کی تلاش میں تھے ۔ان دنوں فلم انڈسٹری میں جاوید اختر بطور مکالمہ نگار اپنی شناخت بنا چکے تھے ، یش چوپڑا نے جاوید اختر سے فلم سلسلہ کے گیت لکھنے کی پیشکش کی۔ فلم “سلسلہ” میں جاوید اختر کے گیت ‘‘دیکھا ایک خواب تو سلسلے ہوئے ’’ اور ‘‘یہ کہاں آ گئے ہم ’’ بے انتہا مقبول ہوئے ۔فلم سلسلہ میں اپنے نغموں کی کامیابی سے حوصلہ پاکر جاوید اختر نے نغمہ نگار کے طور پر بھی کام کرنا شروع کیا۔اس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔جاوید اختر 17 جنوری 1945 کو پیدا ہوئے ا ن کے والد جاں نثار اختر بھی اردو کے ممتاز شاعر تھے ۔جاوید اختر کا بچپن سے ہی شاعری سے گہرا رشتہ رہا ہے ۔ انہوں نے زندگی کے اتار چڑھاؤ بہت قریب سے دیکھے ہیں اس لئے ان کی شاعری میں زندگی کو بڑی شدت سے محسوس کیا جا سکتا ہے ۔ان کے نغموں کی یہ خوبی رہی ہے کہ وہ اپنی بات بڑی آسانی سے دوسروں کو سمجھا دیتے ہیں ۔انہوں نے اپنی میٹرک کی تعلیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے حاصل کی اس کے بعد بھوپال کے صوفیہ کالج سے گریجویشن کیا لیکن کچھ دنوں بعد وہ اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لئے 1964 میں ممبئی آگئے اور محض 100 روپے کی تنخواہ پر فلموں میں ڈائیلاگ لکھنے کا کام کرنے لگے ۔