جاپانی معیشت روبہ زوال کیوں ؟

   

پروین کمال
آج کے اس پرآشوب دور میں جنگیں انتہائی عروج پر ہیں اور پھر قدرتی آفات کی وجہ سے بھی دنیا تباہی کا شکار ہورہی ہے لیکن معمول کے معمولات رواں دواں ہیں۔ مشکلات کے اس دور میں بھی انسانوں کے قدم ترقی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ فطرت میں چھپا جدت پسندی کا جذبہ بلندیوں تک پہنچنے میں مدد کر رہا ہے ۔ اس وقت ساری دنیا میں صنعتی دوڑ چل رہی ہے لیکن مقابلہ کی اس دوڑ میں صنعتی سیلاب اتنا بڑھ گیا ہے کہ ملکوں کو کساد بازاری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ عالمی منڈیوں میں کاروبار سست روی کا شکار ہے۔ کچھ ایسے ہی حالات سے اس وقت جاپان گزر رہا ہے ۔ جاپان جو صنعتی اور تکنیکی دنیا کا ’دیو‘‘ کہلاتا ہے ۔ اس نے تکنیکی کساد بازاری کی وجہ سے اپنی پچھلی شناخت کھودی ہے ۔ اس سال کی شروعات میں ایک حیرت انگیز خبر نے دنیا کو چونکا دیا کہ جاپان معیشت کے میدان میں اپنی تیسرے نمبر کی امیج کو کھوچکا ہے اور اس کی جگہ جرمنی نے حاصل کرلی ہے ۔ یہ بات ناقابل یقین ہے کہ جاپان جو برسوں سے اقتصادی طور پر مضبوط و مستحکم چلا آرہا ہے ، وہ اپنی ساکھ برقرار رکھنے میں ناکام کیسے ہوگیا جبکہ برسوں تک معیشت کے میدان میں امریکہ کے بعد جاپان دوسرے نمبر پر رہ چکا ہے ۔ اگرچہ کہ جاپان کبھی کسی بھی سطح پر پیچھے نہیں رہا ۔ اس حوالے سے ایک بات کا تذکرہ یہاں ضروری ہے ۔ 1973 سے وہ (G7) ’’گروپ سیون‘‘کا رکن چلا آرہا ہے ۔ اس گروپ میں دنیا کے سب سے دولت مند اور صنعتی طور پر ترقی یافتہ ملک شامل ہیں ۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ ان (G7) کے چھ ممالک نے خاص طور پر جاپان کو اپنے گروپ میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی ۔ تب ہی سے جاپان دولت مند صنعتی ملکوں کی فہرست میں شامل ہے ۔ مگر اب وہ معیشت کی دنیا میں کمزور ہوتا نظر آرہا ہے ۔ ’’شطرنج کی بساط پر پھیلی بازی میں کب کونسا مہرہ مار کھا جائے کہا نہیں جاسکتا‘‘۔ غرض جاپان کی پرانی ساکھ ختم ہونے کی کئی ایک وجوہات میں یہ بھی شامل ہے کہ جاپانی کرنسی (yen) صرف ایک سال کے عرصہ میں ڈالر کے مقابلے میں 18 فیصد سے زیادہ گرگئی ہے جبکہ جرمنی کی کرنسی (Euro) جس کو اجرا ہوئے ابھی (22) سال کا عرصہ ہوا ہے ۔ وہ ڈالر کے مقابلے میں کم و بیش مستحکم چلا آرہا ہے ۔ اس وقت جاپان کی مجموعی آبادی (125) ملین ہے جبکہ اس کے مقابلہ میں جرمنی کی آبادی (83) ملین ہے ۔ پھر بھی وہ جاپان کو پیچھے چھوڑ گیا ۔ علاوہ اس کے جاپان کی گھریلو پیداوار گزشتہ برس ڈالر کے لحاظ سے (4.2) ٹریلین ڈالر تک رہی جبکہ اس کے مقابلہ میں جرمنی کی گھریلو پیداوار (4.5) ٹریلین ڈالر رہی۔ یہ ساری وجوہات اس کی معیشت پر اثر انداز ہورہی ہیں۔
جاپانی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ دوسری عالمی جنگ سے قبل بھی جاپان ٹکنالوجی کا ’’باوا آدم ‘‘ کہلایا جاتا تھا ۔ اس وقت اس کے پاس ہوائی جہاز ، بحری جہاز ، گاڑیاں اور ریلوے نظام بنانے کی مکمل ٹکنالوجی موجود تھی لیکن جنگ کے دوران وہ سب کچھ نیست و نابود ہوگیا ۔ اس کی ایک خاص وجہ یہ تھی کہ جاپان آخر تک شکست قبول کرنے کیلئے تیار نہیں تھا جس کی وجہ سے اس پر بموں کی بارش کی گئی اور یوں وہ مکمل طور پر برباد ہوگیا ۔ یہاں تک کہ غذائی حصول تک ناممکن ہوگیا تھا اور پھر از سر نو جاپان کی تعمیر شروع ہوئی ۔ مگر حیرت اس بات کی ہے کہ تعمیر نو خود امریکی انتظامیہ نے کروایا ۔ یعنی اس ملک کو کھنڈرات کا ڈھیر بنانے والے ہی اس کے مسیحا بن گئے ۔ حکمراں امریکی انتظامیہ نے جاپان میں بہت سارے اصلاحی کام بھی کئے ۔ جاپانیوں کو تعلیم کی طرف راغب کیا ۔ روزگار کے مواقع فراہم کئے ۔ صنعتی کارخانے لگائے گئے اور بہت کچھ ۔ جاپانی ویسے بھی بہت محنت کش قوم ہے ۔ وہ پوری توجہ ، دلچسپی اور دیانتداری سے ملک کیلئے کام کرتے رہے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ کھنڈرات کا وہ ملک دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن کر ابھرا لیکن یہ ترقی اسے راس نہ آئی کیونکہ پہلے چین نے اس کی دو نمبر کی جگہ سنبھال لی اور یہ تیسرے نمبر پر آگیا اور اب اس کی کمزور معیشت نے اسے چوتھے نمبر پر پہنچادیا ۔ تجزیہ نگاروں کے بموجب جاپانی معیشت کو اس وقت لیبر کی کمی کا سامنا ہے اور اس کیلئے افرادی قوت کی سخت ضرورت ہے ۔ اس کے لئے غیر ملکیوں کو بلانے کیلئے امیگریشن پالیسی میں نرمی لانا ہوگا ۔ اب یہاں مسئلہ یہ ہے کہ جاپانی عوام کی خاصی تعداد غیر ملکیوں کے خلاف ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جاپان کی قدامت پسند اور قوم پرست آبادی کہاں تک اس پالیسی پر عمل کرتی ہے ۔ کہا یہ جاتا ہے کہ وہاں کی قوم غیر ملکی افراد کی آبادی مقامی افراد کی آبادی سے بڑھتا ہوا برداشت نہیں کرسکتی ۔ وہ اپنے ہزاروں سال پرانی دقیانوسی روایات کو اپنے ملک کا قیمتی اثاثہ سمجھتے ہیں اور غیر ملکیوں سے راہ و ربط رکھنا نہیں چاہتے۔ جنگ میں شکست کے بعد بھی جاپانی حکومت نے اپنے ملک میں غیر ملکیوں کی تعداد صرف دو فیصد تک ہی محدود رکھی تھی جبکہ ایٹمی جنگ کے بعد جاپانی آبادی برائے نام ہی رہ گئی تھی ۔ معلوم ہوا کہ وہ قوم اپنے روایات کی اسیر ہے ۔ اب چونکہ حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ اپنی پرانی روایتوں سے چشم پوشی کر کے غیر ملکی افراد کو خندہ پیشانی سے قبول کیا جائے اور انہیں ایسے مواقع دیئے جائیں کہ وہ اپنی بہتر کارکردگی کو عمل میں لاتے ہوئے ملک کیلئے ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوں اور گزشتہ ادوار کی طرح ملک کا معاشی نقشہ بحال ہوجائے ۔ قیاس ہے کہ بہت جلد اس پر کام شروع ہوجائے گا۔