جبر سے اِلحاق ۔ کشمیر کیساتھ کھلواڑ

   

Ferty9 Clinic

محمد تقی
جموں و کشمیر کے خودمختارانہ موقف کو منسوخ کرنے حکومت ہند کے گزشتہ ماہ کے ’تباہ کن‘ فیصلے کی وجہ سے پیدا شدہ ہلچل ابھی تھمی نہیں ہے۔ کشمیر کی قسمت پر مہر لگانے کی کوشش میں وزیراعظم نریندر مودی نے ساری ریاست اور اس کے عوام کا دنیا کے بقیہ حصے سے رابطہ بند کردیا ہے۔ ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں عام لوگوں کو متاثر کرنے والے اور بازاری لیڈروں کی یو ایس سے یو پی تک اور اسلام آباد سے اٹلی تک حکمرانی چل رہی ہے، جہاں شہری آزادیاں اور انسانی حقوق کی دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں۔ ’گندہ تیزی سے بے داغ‘ بنتا جارہا ہے۔ مودی حکومت کی حرکتیں بالخصوص قابل نفرت ہیں۔ تاہم، اس عمل میں انھوں نے نہ صرف باہمی یا بین الاقوامی معاہدوں اور اعلامیہ جات کی توہین کی بلکہ درحقیقت خود ہندوستانی دستور کو پامال کردیا ہے۔ ہم میں سے وہ جو پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں، اُس ملک کے دستور کو فسخ ہوتا، تعطل میں رکھا جاتا یا یکے بعد دیگر آرمی ڈکٹیٹرز کے ہاتھوں بگڑتا دیکھنے کے عادی ہوچلے ہیں۔ لیکن یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ کس طرح ہندوستانی حکومت نے خود اپنے بنیادی اُصول کو چیلنج کردیا۔ اس نے پاکستانی ڈکٹیٹر جنرل محمد ضیاء الحق کے رسواء کن تبصرے کی یاد دلائی:
’’دستور کیا ہے؟ یہ بارہ یا دس صفحات کا کتابچہ ہوتا ہے۔ میں اسے پھاڑ کر پھینکتے ہوئے کہہ سکتا ہوں کہ کل ہم کوئی مختلف سسٹم کے تحت جئیں گے۔ آج، میں جہاں کہیں رہنمائی کروں، عوام اس کی تعمیل کریں گے۔ تمام سیاستدان بشمول کبھی طاقتور رہ چکے مسٹر بھٹو بھی اپنی دم ہلائے میرے پیچھے چلیں گے۔‘‘
دستور ہند کا آرٹیکل 370 جسے مہاراجہ ہری سنگھ کے دستخط کردہ میثاقِ الحاق میں شامل کیا گیا تھا، جو کشمیر پر ہندوستانی دعویداری کی قانونی اساس بناتا ہے، اسے اس عذر کے ساتھ اوراق سے حذف کردیا گیا کہ وہ عارضی گنجائش تھی۔ حتیٰ کہ اس ریاست کے الحاق کی تاریخ اور مابعد دستوری ارتقاء سے سرسری واقفیت بھی اس کے برعکس کو سچ ظاہر کرتی ہے۔ خود آرٹیکل میں اس کی تنسیخ کی دفعہ موجود ہے، جس میں بڑی شرط ہے کہ ریاست کی دستوری اسمبلی اس کی سفارش انڈین یونین کے صدر سے کرے۔ جو کچھ وزیر داخلہ امیت شاہ اور دیگر نے بے جا تاویل پیش کی کہ دستورساز اسمبلی 26 جنوری 1957ء کو ازخود تحلیل ہوگئی، اس وجہ سے مسترد کردہ آرٹیکل مستقل ہوگیا تھا۔ اور تب سے یہی قانونی موقف رہا ہے۔ قانونی جمود کو حقیقی ڈھانچۂ اقتدار کی مطابقت میں لانے کیلئے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ایک تحریف متعارف کرائی کہ ریاستی اسمبلی اب بے وجود دستور ساز اسمبلی کیلئے قائم مقام ہے، اور چونکہ وہاں موجودہ طور پر کوئی ریاستی اسمبلی نہیں ہے، اس لئے انڈین پارلیمنٹ خود وہ اختیار حاصل کرسکتا ہے، جو شروع سے اس کا حق نہیں تھا۔
نمایاں جمہوریت کی بنیادیں نہایت عجیب انداز میں تبدیلی و تغیر کی نذر کی جارہی ہیں اور جسے دستور کے اوراق میں متعارف کیا گیا ہے۔ یہ تاریخ میں پہلی جمہوری تبدیلی ہوگی جس میں نہ صرف دستور بلکہ عوام بھی کچل دیئے گئے۔ دسیوں ہزار کشمیریوں بشمول ان کے سیاسی قائدین کو گرفتار یا محروس کرکے مواصلات اور ذرائع ابلاغ کو بندوق کی نوک پر بند کرتے ہوئے اس ریاست پر آہنی پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ جمہوریت تاریکی میں غرق ہورہی ہے اور بی جے پی حکومت یہ یقینی بنانے کوشاں ہے کہ کشمیر تک روشنی کی کوئی کرن بھی نہ پہنچنے پائے، یا وہاں سے کوئی نظارہ باہر آنے پائے، جبکہ وہ اپنے ’غیردستوری‘ آئینی فائدوں کیلئے پشتہ بنا رہی ہے۔ تاریخی دانائی رہی ہے کہ طاقت کا جمہوریت مسلط کرنے کیلئے نہیں بلکہ اس کا دفاع کرنے کیلئے استعمال کیا جانا چاہئے۔ لیکن موجودہ معاملے میں سب کچھ الٹا ہے۔ یہ شرط رہی ہے کہ جمہوریتیں ایک دوسرے کے ساتھ لڑائی میں نہیں پڑتیں۔ مگر ہندوستان کے معاملے میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت نے خود اپنے ساتھ جنگ چھیڑی ہے۔ کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے، وہ عوامی احساس اور خط اعتماد کے ذریعے اتحاد نہیں بلکہ جبر کے ذریعے الحاق ہے۔ اس طرح کی روش کا ایک اورنشانِ تصدیق ایسی حرکتوں کو دیگر اور بیرونی عناصر کے ساتھ حقیقی یا قیاسی لڑائی کے پیش نظر واجبی قرار دینا ہوتا ہے۔
پاکستان کا رول
کشمیر کے معاملے میں پاکستان نے ایسے کئی کام کئے کہ ہندوستان کو اس کی حرکتوں کیلئے آسان عذر فراہم ہوگئے۔ روزِ اول سے اس کی آرمی کی طرف سے قبائلی حملے کی منصوبہ بندی اور عمل کے ذریعے مسئلہ کو فوجی رنگ دینے سے لے کر آرمی کی سرپرستی میں ہی لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کی دونوں طرف زہرآلود جہادیت اور سراسر دہشت گردی کو متعارف کرانے تک پاکستان نے کئی سطحوں پر مسئلہ کشمیر کو ماند کیا ہے۔ اس نے بلاشبہ اسے بین الاقوامی سطح پر اٹھایا، لیکن سب کچھ غلط وجوہات کے ساتھ کیا گیا۔ کشمیریت کے قوم پرستانہ تار …جمہوری اور عسکری دونوں… پاکستان کے کشمیر منصوبہ سازوں نے عملاً ختم کردیئے، اور ان کی جگہ جہادیوں کے مختلف النوع لشکر اور جیش قائم کردیئے۔ پاکستان کو کشمیر میں کئی گنا فوائد حاصل ہوئے۔ اس نے ایل او سی میں مسلسل جنگ کی حالت پیدا کرتے ہوئے اپنے نمایاں وجود اور بجٹ کو یقینا حق بجانب ٹھہرایا، انڈین ملٹری کو وادی میں دفاع پر مجبور کئے رکھا اور بعد میں نیوکلیر تعطل کے بھوت کو استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں قائدانہ رول حاصل کرلیا۔
اس کا خالص نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان نے خود کو اور توسیعی طور پر کشمیریوں کو حاشیہ پر کرلیا۔ پاکستان کی فریب کاریوں کی وجہ سے واجبی کشمیری مسائل کی دنیا کی جلد پر چبھن تک محسوس نہ ہوئی۔ ہندوستان کا بار بار یہ دعویٰ کرنا کہ پاکستان نے کشمیر میں جہادی دہشت گرد گھسا رکھے ہیں، اس نے اسلام آباد کو سفارتی طور پر لگ بھگ یکا و تنہا کردیا جیسا کہ یو این سکیورٹی کونسل کا بند دروازوں میں حالیہ سیشن اشارہ دیتا ہے۔ اڑی اور پلوامہ حملوں کے بعد سے ملٹری کا نقشہ تبدیل ہوچکا ہے، اور اس کے بعد ایل او سی کے پار ہندوستانی جوابی کارروائی بھی۔ پاکستان اب محدود روایتی مشغولیت کے سبب نیوکلیر بلیک میل کو بطور مزاحمت استعمال کرنے میں کامیاب نہیں رہا ہے۔ پاکستان کا عملاً مارشل لا کے تحت ہونا بھی اس کے موقف میں مددگار نہیں ہورہا ہے۔ وہاں اپوزیشن قائدین بشمول ایک سابق صدر، دو سابق وزراء اعظم اور ایک درجن پارلیمنٹیرینس گرفتاری میں ہیں۔
اس طرح پاکستان کے پاس مودی کی چال کا جواب دینے کیلئے عملی طور پر کوئی متبادل نہیں ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی ٹوئٹر کے ذریعے لمبی چوڑی ہانک اور قوم سے خطاب کوئی طاقت نہیں بلکہ تاریخی ناکامی اور کمزوری کو ظاہر کرتے ہیں۔ جارحیت کی باتیں کرنے والی پاکستان آرمی نے اپنی بیان بازی کو ’’پاکستان کا دفاع کرنے‘‘ تک محدود رکھا ہے۔ کچھ گرما گرمی دکھانے اور امریکہ سے مداخلت کیلئے التجا کرنے کے علاوہ پاکستان ظاہر ہوتا ہے کہ مودی کے اقدام کو ختم شدہ کام کے طور پر قبول کرچکا ہے۔ G-7 سمٹ کے موقع پر وزیراعظم ہند کے ساتھ میٹنگ میں صدر ڈونالڈ ٹرمپ پہلے ہی پاکستان کی اُن توقعات پر پانی پھیر چکے ہیں، جو کشمیر میں ثالثی کیلئے اُن کی پیشکش کے بعد اُبھری تھیں۔ بہرحال پاکستان کی دیسی یا ایل او سی کے پار کی حرکتیں ہوں، یا بین الاقوامی بے التفائی، ہندوستان جبر کا جواز نہیں ہوسکتے۔ حقوق اور آزادیوں کو سلب کرنا کبھی کسی ملک کا داخلی معاملہ نہیں رہا ہے۔ انسانی حقوق آفاقی ہیں اور جب وہ حقوق پامال کئے جائیں تو مذمت بھی آفاقی ہونا پڑے گا۔
اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی جن کے مشہور و معروف ننہیالی آباو اجداد کشمیری تھے، اُن کو وادی کشمیر میں داخلے سے روکنے پر کشمیریوں کیلئے پابندیوں میں نرمی کرنے کے عہد کی قلعی کھل گئی۔ کشمیر سے آنے والی ہر آزاد رپورٹ اشارہ دے رہی ہے کہ خطہ غم و غصہ سے کھول رہا ہے جس طرح وہاں کے عوام کی اہانت ہوئی ہے، جو صدیوں سے اپنی امتیازی شناخت پر فخر کرتے آئے ہیں۔ بڑے بڑے احتجاج وادی میں پہلے ہی شروع ہوچکے ہیں اور ہندوستانی ردعمل وہی پرانا ہے: کرفیو، خاردار تار اور فوجی دستے۔ مضمحل کردینے والی تکلیف دہ پیلٹ گنس کا استعمال بھی جاری ہے۔ حالات کا جو رُخ نظر آرہا ہے، احتجاج اور سختی دونوں میں اضافہ ہوگا۔ تاہم، ہندوستان کشمیر کو اصل دھارے میں نہیں لاسکتا جب تک اس کے اصل دھارے کے سیاسی قائدین کو نظربند رکھا جائے گا۔ یہ غیرمستحکم صورتحال ہے، ہندوستان کی جمہوری خوبیوں پر انمٹ داغ ہے، اور اس کے مضر اثرات یقینی ہیں۔٭