جب تمہیں چہرے بدلنے کا ہے شوق

,

   

نریندر مودی … فلسطین اور ایران پر مایوس کردیا
سیز فائر ایک معمہ … وزیراعظم ملک کو جواب دیں

رشیدالدین
ایران اور فلسطین۔ ہندوستان آخر کس کے ساتھ ہے؟ اسرائیل بیک وقت فلسطین اور ایران پر حملہ کر رہا ہے اور ایسے میں وشوا گرو نریندر مودی خاموش تماشائی کا رول ادا کر رہے ہیں ۔ نریندر مودی کی خاموشی دراصل اسرائیل کی تائید کے مترادف ہے۔ گزشتہ 10 برسوں میں عالمی سطح پر ہندوستان کا وقار اور اہمیت گھٹتی دکھائی دے رہی ہے جس کیلئے مودی حکومت کی کمزور ، غیر واضح اور بے اثر خارجہ پالیسی ہے۔ ایک دور وہ تھا جب کسی بھی عالمی تنازعہ میں ہندوستان کی رائے کو اہمیت دی جاتی تھی کیونکہ ہندوستان ترقی پذیر اور کمزور ممالک کی آواز بن کر ابھرا تھا۔ سارک کے قیام کے ذریعہ ہندوستان نے پڑوسی ممالک کے ساتھ بقائے باہم اور دوستی کے نئے دور کا آغاز کیا تھا لیکن آج سارک تنظیم برائے نام ہوکر رہ گئی ہے ۔ دنیا کی بڑی طاقتوں کو چھوڑیئے ، خود پڑوسیوں سے ہندوستان کے رشتے خوشگوار نہیں ہیں۔ ہر پڑوسی سے کچھ نہ کچھ تنازعہ چل رہا ہے۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ صرف دعوے کرنے سے کچھ حاصل نہیں جب تک عمل نہ ہو۔ مودی نے جب پہلی مرتبہ وزارت عظمیٰ کا حلف لیا تھا تو انہوں نے پاکستان سمیت تمام پڑوسی ممالک کے سربراہان مملکت کو دہلی مدعو کیا تھا۔ امید کی جارہی تھی کہ ہندوستان سارک ممالک کے لیڈر کے طور پر اپنی شناخت کو برقرار رکھے گا لیکن 10 برسوں میں یکے بعد دیگرے تمام پڑوسی دور ہوگئے اور مودی نے دور دراز ممالک سے دوستی کرلی جن سے ہندوستان کے نظریاتی اختلافات تھے۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ تو باقی ہے لیکن مودی حکومت نے صرف ایک ہی مذہب کی فکر کی جبکہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو وکاس سے محروم رکھا گیا ۔ ٹھیک اسی طرح نریندر مودی قریبی پڑوسیوں سے دوستی قائم نہیں رکھ سکے۔ کوئی ایک بھی ایسا پڑوسی ملک نہیں ہے جس کے ہندوستان سے کسی نہ کسی مسئلہ پر اختلافات نہ ہوں۔ فلسطین اور ایران سے ہندوستان کے قدیم ترین رشتے ہیں اور ہندوستان نے ہمیشہ فلسطینی کاز کی کھل کر تائید کی تھی لیکن نریندر مودی نے ملک کی روایتی پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے اسرائیل اور امریکہ کو خوش کرنے خارجہ پالیسی کو تبدیل کردیا ۔ فسلطینیوں کا غزہ میں قتل عام بلکہ نسل کشی جاری ہے لیکن نریندر مودی نے فلسطینیوں کے حق میں آواز نہیں اٹھائی ۔ ٹھیک اسی طرح اسرائیل نے ایران پر بلا اشتعال حملہ کردیا لیکن مودی کی زبان بند رہی ۔ نریندر مودی کے گہرے دوست بنجامن نتن یاہو کے خلاف وہ ہرگز نہیں جاسکتے۔ فلسطینیوں اور ایران پر حملہ کے لئے گڈ فرینڈ نتن یاہو ذمہ دار ہیں ، لہذا مودی کیلئے دھرم سنکٹ آچکا ہے کہ وہ آخر کس کا ساتھ دیں۔ گزشتہ چند ماہ میں غزہ میں 60 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کردیا گیا لیکن نریندر مودی حکومت نے زبانی مذمت تک نہیں کی ۔ فلسطینیوں کی امداد توکجا ان سے ہمدردی تک نہیں کی گئی۔ اسی طرح ایران ۔ اسرائیل تنازعہ میں بھی غیر جانبدار بابو کا رول ادا کر رہے ہیں۔ ویسے بھی نریندر مودی سے امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ مسلمانوں کی تائید کریں گے ۔ گجرات فسادات سے لیکر گزشتہ دس برسوں میں مخالف مسلم واقعات کا جائزہ لیں تو نریندر مودی نے ایک بھی واقعہ کی مذمت نہیں کی بلکہ نفرت کے سوداگروں کی حوصلہ افزائی کی گئی ۔ مودی کے ایک اشارہ پر جب روس اور یوکرین جنگ روک سکتے ہیں تو اسرائیل کو یہ اشارہ کیوں نہیں دیا جاتا ۔ مودی کو غزہ پر حملوں کو روکنے کے علاوہ اسرائیل۔ایران میں جنگ بندی کی مساعی کرنی چاہئے ۔ مسلمانوں کے کٹر مخالف بنجامن نتن یاہو کو مودی نے اپنا دوست بنایا کیونکہ دونوں کے نظریات ، افکار حتیٰ کہ منصوبے بھی یکساں ہیں۔ ملک میں مسلمانوں کے خلاف اسرائیلی طرز کی پالیسی اختیار کی جارہی ہے ۔ خاص طور پر کشمیر میں دہشت گردوں کے نام پر جو بھی کارروائی ہوتی ہے ، اس کا سبق اسرائیل سے سیکھا ہوا ہے۔ ایران کے ہندوستان کے ساتھ روابط صدیوں قدیم ہیں اور ہندوستان نے ایران کی تہذیب ، ثقافت اور روایت کو اپنے دامن میں جگہ دی ہے لیکن آج جب ایران پر آزمائش کا وقت آیا تو ہندوستان تماشائی بن گیا۔ جب سے نریندر مودی وزارت عظمی پر فائز ہوئے ہیں، عالمی سطح پر ہندوستان کی آواز بے اثر ہونے لگی ہے ۔ عالمی فورمس میں ہندوستان کی گھٹتی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ G-7 سمٹ میں مودی کو لمحہ آخر میں دعوت نامہ دیا گیا جبکہ دیگر ممالک کو چند ماہ قبل مدعو کیا گیا تھا ۔ اس قدر توہین کے باوجود نریندر مودی نے G-7 سمٹ میں شرکت کی جبکہ وہاں ان کی پذیرائی اس قدر نہیں ہوئی جیسا کہ ہندوستان کا حق ہے۔ لمحہ آخر میں دعوت نامہ کے باوجود مودی کا شریک ہونا ایسا ہے جیسے وہ بستر باندھ کر تیار بیٹھے تھے۔ پہلگام حملہ اور آپریشن سندور کے بعد پاکستان کی دنیا کے سامنے پول کھولنے کیلئے 57 ارکان پارلیمنٹ کو 33 ممالک روانہ کیا گیا لیکن G-7 میں سربراہان ممالکت کے ساتھ ملاقاتوں میں مودی نے پاکستان کی پول کھولنے کے بجائے ہنسی و مذاق اور گپ شپ کی تصاویر اور ویڈیوز کو وائرل کیا۔ ہندوستان میں جس طرح اکڑکر پھرتے ہیں ، عالمی سلطح پر ایسا کوئی دبدبہ نریندر مودی قائم نہ کرسکے۔ اس کی بنیادی وجہ کمزور خارجہ پالیسی ہے جو بعض عالمی طاقتوں کی اسیر بن چکی ہے۔ فلسطین اور ایران کے معاملہ میں مودی حکومت نے ملک کے 140 کروڑ عوام کو مایوس کردیا ہے۔
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کس نے کرائی؟ یہ ملین ڈالر کا سوال بن چکا ہے ۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ایک نہیں 14 بار یہ دعویٰ کرچکے ہیں کہ انہوں نے دونوں ممالک کو تجارتی پابندیوں کی دھمکی دے کر جنگ بندی کیلئے راضی کیا ہے۔ G-7 سے اچانک واپسی کے بعد ٹرمپ نے نریندر مودی سے فون پر بات چیت کی۔ خارجہ سکریٹری وکرم مستری نے دعویٰ کیا کہ وزیراعظم نے فون پر امریکی صدر پر واضح کردیا کہ جنگ بندی کیلئے کوئی تیسرا ملک ذمہ دار نہیں ہے ۔ پاکستان کی پہل پر ہندوستان نے جنگ بندی سے اتفاق کیا ۔ نریندر مودی نے دونوں ممالک کے درمیان تیسرے فریق کی ثالثی کے امکانات کو بھی مسترد کردیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر وزیراعظم نے ٹرمپ کو کھری کھری سنائی تھی تو پھر اس کا اظہار نریندر مودی کو خود کرنا چاہئے تھا۔ جب ٹرمپ خود دعویٰ کر رہے ہیں تو جواب بھی نریندر مودی کو دینا چاہئے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹیلیفون پر بات چیت کے چند گھنٹے بعد ہی ٹرمپ نے پھر ایک بار جنگ بندی کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی ۔ نریندر مودی کو ٹرمپ اپنا دوست قرار دے رہے ہیں لیکن ان کی محبت پاکستان کے ساتھ دکھائی دے رہی ہے۔ ٹرمپ نے پاکستان کے فوجی سربراہ عاصم منیر کو لنچ پر مدعو کیا اور یہ اپنی نوعیت کا ایک پہلا واقعہ ہے ۔ عاصم منیر سے ملاقات کے بعد ٹرمپ نے ’’آئی لو پاکستان ‘‘ کہتے ہوئے ہر کسی کو حیرت میں ڈال دیا۔ پہلی میعاد میں ٹرمپ ہندوستان کے ساتھ تھے اور پاکستان کو دہشت گرد سرگرمیوں کی پشت پناہی کیلئے ذمہ دار قرار دیتے رہے۔ لیکن دوسری میعاد میں ان کا موقف تبدیل ہوچکا ہے ۔ پاکستان کے فوجی سربراہ سے ایران ۔ اسرائیل تنازعہ پر بات چیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کو ایران کے خلاف تیار کرنے کی ٹرمپ کوشش کر رہے ہیں۔ ایران پر حملہ کی صورت میں وہ پاکستانی سرزمین کا استعمال کرسکتے ہیں۔ امریکہ کی کسی بھی ملک سے دوستی یا دشمنی مفادات کے بغیر نہیں ہوتی اور ایران کو نشانہ بنانا ہو تو پاکستان کی تائید ضروری ہے۔ جنگ بندی کے مسئلہ پر ٹرمپ کی دعویداری سے نریندر مودی کی فون پر بات چیت پر کئی سوال کھڑے ہوئے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ نریندر مودی کی ریکارڈنگ ٹرمپ کو سنادی گئی ہو اور وہ سمجھ نہیں پائے۔ ٹرمپ نے کینیڈا سے واپسی پر امریکہ میں توقف کرنے کی دعوت دی لیکن وزیراعظم نے اپنی مصروفیات کا بہانہ بناکر دعوت کو قبول نہیں کیا۔ اگر مودی واشنگٹن جاتے تو شائد ٹرمپ کی موحودگی میں ان کی ملاقات پاکستان کے آرمی چیف عاصم منیر سے ہوجاتی۔ گودی میڈیا نے وزیراعظم کی فون پر بات چیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور یہاں تک کہا گیا کہ مودی نے ٹرمپ کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر ثالثی کو مسترد کردیا ۔ نریندر مودی نے فون پر بات کی یا پھر ویڈیو کالنگ کی ۔ اگر ٹیلیفون پر بات چیت ہوئی تو پھر آنکھ میں آنکھ ڈالنے کی گنجائش نہیں رہتی۔ گودی میڈیا کو ہر حال میں مودی کی جئے جئے کار کرنی ہے ، لہذا ہر معاملہ میں مودی کو وشوا گرو کے طور پر پیش کیا جارہا ہے ۔ ٹرمپ کے تازہ ترین بیان کے بعد ہندوستانی میڈیا بغلیں بجا رہا ہے کیونکہ ٹرمپ نے کہا کہ پاکستان اور ہندوستان کی قیادت میں آپس میں بات چیت کرتے ہوئے جنگ بندی کا فیصلہ کیا ۔ ٹرمپ کا موقف تبدیل کیوں ہوا اس اندازہ ان کے آئندہ بیان سے ہوجائے گا۔ مودی کے غیر یقینی موقف پر محشر آفریدی کا یہ شعر صادق آتا ہے ۔
جب تمہیں چہرے بدلنے کا ہے شوق
پھر تمہاری اصلیت کس کام کی