کپل سبل
ہندوستان کے کئی قوانین ضابطہ اخلاق کو باقاعدہ بنانے کی بجائے جبر و ستم کے آلات بن گئے ہیں۔ ایسا ہی ایک قانون، قانون انسداد غیر قانونی سرگرمیاں 1967 (یو اے پی اے) ہے جس کا اصل مقصد دہشت گردی کے خلاف لڑنا اور معروف دہشت گرد تنظیموں کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں نامزد کرنا ہے۔ جولائی 2019 میں پارلیمنٹ نے یو اے پی اے قانون میں نئی ترمیم کی ہے جس کے تحت اب انفرادی طور پر مختلف افراد کو بھی اس قانون کے تحت بک کیا جائے گا یا مقدمات درج کئے جائیں گے اور اس کے لئے ان افراد کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا جائے گا اور پھر انہیں دہشت گرد قرار دیا جائے گا۔ حالانکہ اس قانون کے پہلے شیڈول میں زائد از 36 دہشت گرد تنظیموں کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ان میں سے کسی ایک تنظیم سے بھی الحاق نہ ہونے کے باوجود مختلف افراد کو انفرادی طور پر دہشت گرد نامزد کیا جاسکتا ہے۔ حکومت نے اس ترمیم کو متواتر منصفانہ قرار دینے کی کوشش کی ہے وہ ایسے دہشت گردوں اور دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ موثر انداز میں نمٹنے سے متعلق اپنی خواہش کی مبینہ تکمیل چاہتی ہے جو سلامتی کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں لیکن بدبختی سے یو اے پی اے حالیہ عرصہ کے دوران ان لوگوں کے خلاف استعمال کیا گیا جنہوں نے ظلم جبر کے خلاف آواز اٹھائی اور جنہوں نے شہری حقوق کے کاز کے لئے تحریک چلائی اور اقدامات کئے، ان لوگوں نے حکومت اور اس کی پالیسیوں کی مخالفت کی۔
وزیر داخلہ نے جب یہ ترمیم پیش کی اس بات کو منصفانہ قرار دیا کہ کسی بھی شخص کو دہشت گرد قرار دیا جاسکتا ہے اور یہ ایسی صورت میں بالکل درست ہوگا جب وہ دہشت گرد ورکر ہو یا کسی بھی دہشت گردانہ کارروائی میں حصہ لیتا ہو۔ وزیر داخلہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ جو لوگ دہشت گردی کے فروغ میں یا اس کی تیاری میں مدد کرتے ہیں انہیں بھی دہشت گرد نامزد کیا جانا چاہئے۔ ان میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو دہشت گردی کو فروغ دینے کی خاطر رقم جمع کرتے ہیں۔
یہ بھی بالکل صحیح ہے کہ جو شخص دہشت گرد تنظیم کے ایک رکن کی حیثیت سے دہشت گردانہ کارروائی میں حصہ لیتے ہوئے اپنا ایجنڈہ آگے بڑھاتا ہے اس کے ساتھ یو اے پی اے کی مختلف دفعات کے مطابق نمٹنا چاہئے۔ تاہم ہم ایسے گرے زون کی جانب آگے بڑھ رہے ہیں جہاں ریاست لوگوں پر دہشت گردی کی تیاری یا اس کے فروغ اور پھر دہشت گردی کے فروغ کے لئے رقم اکٹھا کرنے جیسے الزامات عائد کرتے ہوئے ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی خواہاں ہے۔ جب تک دہشت گردی کی تیاری یا دہشت گردانہ کارروائیوں کے فروغ کے درمیان راست گٹھ جوڑ ثابت نہیں ہوتا اور دہشت گرد تنظیم کی سرگرمی ثابت نہیں ہوتی تب تک یہ قانون استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں تک اس قانون کا سوال ہے ریاست کی امتیازی سلوک پر مبنی پالیسیوں اور اقدامات کی مخالفت کرنے والوں کو خاموش کرنے کے لئے یہ قانون استعمال کیا جائے گا اور استعمال بھی کیا گیا۔ وزیر داخلہ کا مزید کہنا تھا کہ کئی ایسے دوسرے بھی ہیں جنہوں نے دہشت گردانہ لٹریچر پھیلانے اور نوجوان ذہنوں کو دہشت گردانہ نظریات سے متاثر کرنے اور ان کے ذہنوں کو پراگندہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردانہ لٹریچر کس قسم کا ہے اور نوجوان ذہنوں کو کن نظریات سے پراگندہ کیا جارہا ہے اور کس قسم کا پروپگنڈہ کیا جارہا ہے جس کے ذریعہ یہ سمجھایا جارہا ہے کہ فلاں دہشت گردانہ کارروائی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اس طرح حکومت اس قانون کا بہ آسانی بیجا استعمال کرسکتی ہے۔
تاہم یو اے پی اے کے تحت کسی بھی شخص کو دہشت گرد نامزد نہیں کیا گیا لیکن معاشرہ کے کئی باعزت و بااحترام رہنماؤں، صحافیوں اور طلبہ جنہوں نے شہریت ترمیمی قانون یا سی اے اے کی مخالفت کی ہے اور ریاست نے جن کے خیالات کو حکومت کے خیالات سے متضاد سمجھا ہے سردست یو اے پی اے کے تحت قانونی چارہ جوئی کے ارادہ سے ان تمام کی تحقیقات کی جارہی ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو رپورٹ 2018 کا جو ڈاٹا دستیاب ہے وہ بتاتا ہے کہ یو اے پی اے کے تحت جن لوگوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی گئی ان کی شرح سزا 2015 میں 14.5 فیصد اور 2017 میں بہت زیادہ 49.3 فیصد رہی۔ 2018 میں 1421 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ دوسرے متعلقہ ڈاٹا میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کے خلاف چارج شیٹ پیش کی گئی اس طرح کے افراد کی تعداد 853 اور جنہیں خاطی قرار دیا گیا ان کی تعداد 35، جنہیں ڈسچارج اور بری قرار دیا گیا ان کی تعداد بالترتیب 23 اور 117 بتائی گئی ہے۔ واضح طور پر دیکھا جائے تو 2018 میں خاطی قرار دیئے گئے افراد کی شرح 30 فیصد سے کم تھی جنہیں تحت کی عدالت نے خاطی قرار دیا ان میں سے عدالت مرافعہ کی جانب سے بری قرار دیئے جاسکتے ہیں۔ اس طرح خاطی قرار دیئے گئے افراد کی تعداد غیر معمولی طور پر کم ہو رہی ہے۔
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ تحقیقاتی حکام ایسے ملزمین کے نام بھی شامل کررہے ہیں جو واضح طور پر دہشت گرد نہیں ہیں۔ اس طرح یہ حکام قانون اور قانونی طریقہ کار کو ظلم و جبر کا باعث بنارہے ہیں۔ مثال کے طور پر کئی ایسے افراد ہیں جنہیں بری ہونے سے قبل کئی برسوں تک حراست میں رکھا گیا۔ بعض پریشان کن مثالیں ہمارے سامنے ہیں جن میں آر ٹی آئی جہد کار اکھیل گوگوئی جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ریسرچ اسکالر صفورہ زرگر: آنند تیلتمبڈے اور گوتم نولکھا ان دونوں نے ہندوستان کے انتہائی حساس طبقات یعنی دلتوں اور آدی واسیوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے کام کیا ہے۔ اس کے علاوہ عالمی سطح پر شہرت رکھنے والی 26 سالہ فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرہ: اور عمر خالد کے خلاف بھی دہلی فسادات کے لئے عوام کو سی اے اے مخالف ریالیوں میں اپنی تقاریر کے ذریعہ مبینہ طور پر اکسانے پر مقدمات درج کئے گئے۔ اسی طرح ایک کشمیری مصنف و صحافی گوہر جیلانی کو ان کے سوشل میڈیا پوسٹس کے لئے نشانہ بنایا گیا۔ ریاست ان اقدامات کے ذریعہ شہریوں کی بنیادی آزادی کی خلاف ورزی کی مرتکب ہو رہی ہے کیونکہ اس قانون کے تحت گرفتاری کے بعد ضمانت کے حصول میں بہت تاخیر ہوتی ہے یعنی بہت زیادہ دفعات لگائی جاتی ہیں۔ یہ ایسی دفعات ہیں جس کے تحت پہلے تو جن لوگوں کے خلاف تحقیقات کی جارہی ہیں انہیں 180 دن تک چارج شیٹ پیش کئے بناء حراست میں رکھا جاسکتا ہے۔ عدالت یہ سمجھتی ہے کہ جس شخص کے خلاف بادی النظر میں الزامات صحیح ہیں تو پھر اسے ضمانت دیئے جانے سے انکار کردیا جاتا ہے۔ ویسے بھی قانون میں ایک گنجائش یہ ہے کہ ملزم کو کیس ڈائری تک رسائی نہیں دی جاسکتی اور جہاں تک چارج شیٹ کا سوال ہے عدالت کی جانب سے شعور یا آگہی کی بنیاد پر اقدام کرنے کا انحصار اس بادی النظر ایقان پر ہوتا ہے کہ الزامات درست ہیں۔ اس مرحلہ پر عدالت کی جانب سے ملزم کے خیالات کی سماعت نہیں کی جاتی۔ اس طرح یہ قانون کو بہت زیادہ اور جارحانہ بنادیتا ہے جہاں ملزم کے لئے ضمانت تک رسائی کی امید باقی نہیں رہتی جبکہ مقدمہ بھی طویل مدت تک چلتا رہتا ہے۔ واضح رہے کہ 2018 کے اواخر تک 2008 مقدمات میں سے صرف 317 سماعت کے لئے بھیجے گئے۔ اگر دیکھا جائے تو ریاست میں قانون کا ظلم و جبر کے ایک آلہ کے طور پر استعمال کیا ہے اس طرح اس نے جمہوریت کو اپنا شکار بنایا ہے۔