جب پارلیمنٹ میں بحث کی اجازت نہ دی جائے

   

پی چدمبرم، سابق مرکزی وزیر داخلہ

پارلیمنٹ کا جب بھی اجلاس ہوتا ہے وزیر اعظم کچھ ایسی باتیں کرجاتے ہیں جسے سن اور پڑھ کر یا دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ باتیں کتنی عجیب ہیں اور یہ ایسی باتیں ہیں جن سے ایک مخصوص سوچ و فکر کا پتہ چلتا ہے۔ پارلیمنٹ کا حال ہی میں سرمائی اجلاس شروع ہوا اور اس اجلاس میں اپوزیشن کے اٹھائے جانے والے اہم اور سلگتے مسائل سے بچنے کی خاطر وزیر اعظم نے کہہ دیا کہ پارلیمنٹ میں ہنگامہ اور نعرہ بازی نہیں ہونی چاہئے بلکہ پارلیمنٹ میں ڈیلیوری ہونی چاہئے ڈرامہ نہیں۔ بہرحال یہ واضح تھا کہ پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس سے قبل وزیر اعظم یقینا کچھ ایسا بیان ضرور دیں گے کہ جس میں اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے گا۔ ویسے بھی پارلیمنٹ کے ہر اجلاس سے قبل وزیر اعظم روایتی تقریر ؍ بیان کرتے ہیں۔ یکم ڈسمبر 2025 کو مودی جی نے ارکان پارلیمان خاص طور پر ایک یا دو جماعتوں کو یہ یاد دلایا کہ پارلیمنٹ وہ جگہ ہے جہاں ڈلیوری ہونی چاہئے ڈرامہ نہیں۔
اشتعال انگیز ریمارکس: اگر دیکھا جائے تو پارلیمنٹ سرمائی اجلاس کا آغاز بڑے ہی منحوس انداز میں ہوا۔ یہاں مودی کے الفاظ نقل کرنا مناسب ہوگا، ’’بد قسمتی سے ایک یا دو سیاسی جماعتیں ایسی ہیں جو اپنی ناکامی ہضم کرنے سے قاصر ہیں، میں نے سوچا کہ تھا کہ ریاست بہار اسمبلی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد اب تک کافی وقت گذر چکا ہے اور وہ جماعتیں جنہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا سنبھل چکی ہوں گی لیکن ان جماعتوں کے قائدین کے کل کے بیانات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بہار کی شکست ہنوز انہیں پریشانی میں مبتلا کئے ہوئے ہے‘‘۔
مسٹر مودی نے صرف یہی کہنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ یہ کہتے ہوئے بھی اپوزیشن پر طنز کیا کہ ملک میں نعرے بلند کرنے کے لئے کافی جگہ ہے اور آپ پہلے ہی دکھا چکے ہیں کہ آپ کہاں شکست کا سامنا کرچکے ہیں اور کل آپ کہاں شکست سے دوچار ہونے والے ہیں وہ بھی دکھاسکتے ہیں لیکن ہمیں یہاں (پارلیمنٹ میں) پالیسی پر زور دینا چاہئے نعروں پر نہیں، مودی نے اپنے خطاب میں علاقائی جماعتوں کو بھی طنز و طعنوں کا نشانہ بنایا اور کہا کہ بعض ریاستوں میں حکومت مخالف لہر چل رہی ہے اور وہاں اقتدار پر فائز لیڈران لوگوں کا سامنا کرنے سے گھبرا رہے ہیں۔ وہ عوام کے درمیان جانے سے قاصر ہیں۔ ان میں عوام کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ایسے میں وہ لیڈران پارلیمنٹ آکر اپنا سارا غصہ یہاں نکالتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو یہ ایک کلاسیکی دوغلاپن تھا۔ ہر اجلاس کے آغاز میں حکومت یہ اعلان کرتی ہے کہ اسے کچھ چھپانا نہیں ڈرنا نہیں اور کوئی بھی موضوع پارلیمان میں زیر بحث آسکتا ہے لیکن اس میں ایک پکڑ بھی ہے اور وہ یہ ہیکہ ہر بات قواعد کے تابع ہوتی ہے، قواعد کتاب میں ضرور ہیں مگر ان کی تشریح و توضیح اور ان کا استعمال اسپیکر یا چیرمین کے دائرہ اختیار میں ہوتا ہے جو عموماً حکومت کے حامی ہوتے ہیں۔ باالفاظ دیگر انہیں حکومت موافق کہا جاسکتا ہے۔
کس کا ایجنڈہ : بلز اور بجٹ حکومت کا ایجنڈہ ہوتی ہے۔ وقفہ سوالات اور بحث کے لئے نہیں ہوتا کھلی اور بنا روک ٹوک بحث اپوزیشن کے کہنے پر صرف اسی وقت ہوسکتی ہے جو تحریک التواء یا قلیل مدتی مباحث یا Calling Attention Notice کے ذریعہ ہی ہوسکتی ہے۔ یہ سب کے سب پارلیمنٹ کے روایتی طریقہ کار ہیں اور ان کے سخت قواعد ہیں۔
تحریک التواء : اسے اکثر حکومت کے خلاف عدم اعتماد اور حکومت کی ملامت کے اشارہ کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ تاہم یہ قانون بالکل واضح ہے لوک سبھا میں قاعدہ 57 کچھ یوں کہتا ہے ’’تحریک التواء کسی ایسے حالیہ واقعہ پر ہو جو حکومت ہند کی ذمہ داری سے وابستہ ہو، راجیہ سبھا میں قاعدہ 267 کے تحت کسی اہم ترین معاملہ پر ایوان کی کارروائی معطل کرکے بحث کی جاسکتی ہے۔ مختصر مباحث : لوک سبھا میں قاعدہ 193 اور راجیہ سبھا میں قاعدہ 176 کے تحت ہوتی ہیں اور فوری عوامی اہمیت کے کسی معاملہ پر ہوتے ہیں۔
توجہ طلب نوٹس : یہ عام طور پر بے خت ۔ نوٹس سمجھی جاتی ہے لوک سبھا میں قاعدہ نمبر 197 اور راجیہ سبھا میں قاعدہ 180 کے تحت کوئی بھی رکن کسی بھی وزیر کی توجہ کسی ہنگامی عوامی معاملہ کی طرف مبذول کراسکتا ہے اور اس پر متعلقہ وزیر بیان (جواب) دینے کا پابند ہوتا ہے۔ ذیل کی سطور میں پیش کئے گئے اعداد و شمار (جو اصل دستاویز میں ہوں گے) واضح کرتے ہیں کہ کس طرح آہستہ آہستہ ہر راہ اور دروازہ اپوزیشن کے لئے بند کیا جاتا ہے۔سال 2015 میں Calling Attention نوٹسوں کی تعداد لوک سبھا میں 3 اور راجیہ سبھا میں 5 رہی۔ 2016 میں لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں کوئی تحریک التواء پیش نہیں کی گئی۔ ہاں دونوں ایوانوں میں 9 مرتبہ مختصر مباحث ہوئے۔ اس طرح CAN (کالنگ اٹینشن نوٹس) لوک سبھا میں 4 اور راجیہ سبھا میں 10 مرتبہ دی گئی۔ 2017 میں لوک سبھا میں 4 اور راجیہ سبھا میں 7 مختصر مباحث ہوئے جبکہ لوک سبھا میں Calling Attention نوٹس ایک مرتبہ اور راجیہ سبھا میں 3 مرتبہ پیش کی گئی۔ سال 2018 میں لوک سبھا میں ایک اور راجیہ سبھا میں 2 مختصر مباحث ہوئے۔ اس کے برعکس صرف راجیہ سبھا م یں 2 کالنگ اٹینشن نوٹس دی گئیں۔ سال 2019 میں لوک سبھا میں 4 اور راجیہ سبھا میں 4 مختصر مباحث ہوئے اور راجیہ سبھا میں 6 کالنگ اسٹیشن نوٹسیں دی گئیں۔ 2020 کے دوران لوک سبھا میں 2 اور راجیہ سبھا میں ایک مختصر مباحث ہوئے۔ کالنگ اٹینشن نوٹسیں نہیں دی گئیں۔ 2021 میں لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں 3، 3 مرتبہ مختصر مباحث ہوئے جبکہ لوک سبھا میں ایک مرتبہ متعلقہ وزیر کی توجہ ہنگامی مسئلہ پر مرکوز کروائی گئی۔ 2022 کے دوران لوک سبھا میں 5 اور راجیہ سبھا میں دو جبکہ 2023 میں راجیہ سبھا میں دو مرتبہ مختصر مباحث ہوئے، اب بات کرتے ہیں 2024 کی اُس سال لوک سبھا میں 2 اور راجیہ سبھا میں 3 مرتبہ مختصر مباحث کئے گئے جبکہ راجیہ سبھا میں کالنگ اٹینشن نوٹس ایک مرتبہ دی گئی۔ سال 2025 میں نومبر تک لوک سبھا میں صرف ایک مرتبہ توجہ مرکوز کروانے کی نوٹس دی گئی۔ آپ کو بتادیں کہ مودی حکومت نے اپنی پہلی میعاد میں تحریک التواء کی مخالفت کی۔ بہرحال اگر پارلیمنٹ میں حکومت اپوزیشن کو بحث کی اجازت نہ دے تو اس کا مطلب یہی ہیکہ جمہوریت کمزور اور آمریت مضبوط ہو رہی ہے۔ اس معاملہ میں اپوزیشن کو خصوصی حکمت عملی اختیار کرنے اور حکومت کو سنجیدگی سے مباحث کرنے کی جانب راغب کرنے کی ضرورت ہے۔ اپوزیشن کو ایسا موقف اختیار کرنا چاہئے جس سے حکومت خود اہم مسائل پر سنجیدگی سے بحث کے لئے تیار ہو۔