امجد خان
روس۔ یوکرین جنگ کو 1120 دن ہوچکے ہیں۔ یوکرین کی فوج نے دعویٰ کیا ہیکہ یوکرینی دارالحکومت کیف پر روسی حملہ کے بعد سے اب تک 88513 روسی سپاہی ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔ ان میں سے 1180 روسی فوجی پچھلے 24 گھنٹوں میں ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مطابق امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو رواں ہفتہ یوکرینی ہم منصب سے بات چیت کیلئے سعودی عرب گئے۔ دوسری جانب پولینڈ کے وزیرخارجہ ریڈوزلا سکورسکی نے کہا ہیکہ پولینڈ جو اسٹارلنک انٹرنیٹ خدمات تک یوکرین کی رسائی کیلئے رقم ادا کرتا ہے ایلون مسک کی دھمکی کے بعد دوسرے سپلائر کی خدمات حاصل کرسکتا ہے۔ اسٹارلنک انٹرنیٹ سرویس کے مالک ایلون مسک نے پرزور انداز میں کہا تھا کہ اگر میں اسٹارلنک انٹرنیٹ خدمات بند کردوں تو یوکرین کا سارا فرنٹ لائن مفلوج ہوجائے گا۔ جواب میں امریکی وزیرخارجہ نے پولینڈ کے وزیرخارجہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کسی نے بھی اسٹار لنک انٹرنیٹ سرویس بند کرنے کی دھمکی نہیں دی۔ یوکرین اور پولینڈ کو اسٹارلنک انٹرنیٹ سرویس سے اظہارتشکر کرنا چاہئے کیونکہ اسٹارلنک کے بغیر یوکرین کبھی کے یہ جنگ ہارچکا ہوتا۔ جہاں تک یوکرین کا سوال ہے ایک ایسا بھی دور تھا جب یوکرین اس کرہ ارض کی تیسری بڑی جوہری طاقت تھا اور پھر وہ اس کرہ ارض کا واحد ملک بن گیا جس نے جوہری ہتھیاروں کو ترک کیا۔ سردجنگ کے خاتمہ کے بعد یوکرین دنیا کی تیسری بڑی جوہری طاقت بن کر ابھرا کیونکہ اس کے پاس سویٹ یونین کی تقسیم اس کے منتشر ہونے کے نتیجہ میں سویٹ یونین کے بے شمار جوہری ہتھیار رہ گئے جن میں تقریباً 5000 جوہری ہتھیار، طویل فاصلہ پر مار کرنے والے ایسے میزائیل جو 60 تھرمو نیوکلیئر وار ہیڈس لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں شامل تھے۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ ان جوہری ہتھیاروں کو یوکرین میں آخر کہاں رکھا گیا؟ آیا وہ محفوظ بھی ہیں یا نہیں؟ اس طرح کے سوالات کے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہیکہ یہ تمام جوہری ہتھیار یوکرین بھر میں خفیہ اور زیرزمین پوشیدہ مقامات میں رکھے گئے۔ یہ کام بہت ہی رازدارانہ اور خفیہ انداز میں کیا گیا اس قدر زبردست اسلحہ پر کنٹرول ہونے کے باوجود یوکرین نے جوہری اسلحہ کو ترک کرنے کا تاریخی فیصلہ کیا اور وہ ایسا کرتے ہوئے تاریخ میں اس طرح کا قدم اٹھانے والا پہلا ملک بھی بن گیا۔ اس نے رضاکارانہ طور پر جوہری ہتھیاروں کو ترک کیا۔ نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ فیصلہ ملک کے مستقبل کی سمت کو تشکیل دے گا اور روس کے ساتھ جاری موجود تنازعہ کی منزل طئے کرے گا۔
جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کا فیصلہ: 1990ء کی دہائی کے اوائل میں سویٹ یونین کی تحلیل کے بعد یوکرین کو کئی ایک پیچیدہ چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ اس کے پاس جوہری ہتھیاروں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی اس کے باوجود یوکرین کا کوئی آپریشنل کنٹرول نہیں تھا۔ روس نے جوہری ہتھیاروں کو لانچ کرنے کیلئے درکار کوڈس، سنٹرل کمانڈ اور کنٹرول سسٹم برقرار رکھا۔ اس نے یوکرین کو اپنے جوہری اسلحہ آزادانہ طور پر استعمال کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم کردیا۔ اس طرح اس نے یوکرین کو جوہری اسلحہ استعمال کرنے کی صلاحیت کے بغیر چھوڑ دیا جیسا کہ ماہرین نوٹ کرتے ہیں ان جوہری اسلحہ کی روک تھام کی قیمت غیرمعمولی تھی چونکہ جوہری اسلحہ پر یوکرین کا کنٹرول نہیں تھا ایسے میں یوکرین اپنے دفاع کیلئے حقیقی طور پر ان پر انحصار نہیں کرسکتا تھا۔ ساتھ ہی اہم جغرافیائی، سیاسی اور اقتصادی تحفظات بھی تھے جس کے نتیجہ میں یوکرین کو اپنے جوہری اسلحہ ترک کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ سب سے پہلے اتنی زیادہ تعداد میں اسلحہ کو برقرار رکھنے اور محفوظ کرنے سے یوکرین کی پہلے ہی سے مشکلات کا شکار معیشت پر بہت زیادہ دباؤ پڑا۔ اس کے علاوہ ہتھیاروں کے آپریشنل کنٹرول کی تلاش سنگین سفارتی نتائج کا باعث بن سکتی تھی۔ اگر یوکرین جوہری ہتھیاروں کے آپریشنل کنٹرول کی تلاش کرتا ہے تو اس کے نہ صرف سنگین اثرات مرتب ہوں گے بلکہ خود یوکرین کے اتحادی ممالک بشمول امریکہ اور NATO اس سے دوری اختیار کرسکتے ہیں اور روس اور شدت کے ساتھ یوکرین کے خلاف کارروائی کرے گا۔ آپ کو بتادیں کہ خود جوہری طاقت ہونے کے باوجود امریکہ نے ان ممالک کو جوہری کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار ختم کرنے (ترک کرنے) کیلئے فنڈز اور مہارت فراہم کی۔ یہ وہ وقت تھا جب یوکرین نے 1994ء کے بڈاپیسٹ میمورنڈم پر دستخط کئے جس میں اس نے روس، امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے سیکوریٹی کی یقین دہانیوں کے بدلے اپنے جوہری ہتھیاروں کو ترک کرنے سے اتفاق کیا۔ بڈاپیسٹ میمورنڈم میں یہ وعدہ کیا کہ یہ دستخط کنندگان یوکرین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کریں گے اور اس کے خلاف طاقت کے استعمال یا دھمکیوں سے گریز کریں گے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ 1994 اور 1996ء کے درمیان یوکرین نے جوہری تخفیف کا عمل مکمل کیا۔ اس کے آخری جوہری اسلحہ مئی 1996ء تک روس کو بھیجے گئے۔
روس میں پوٹن کا عروج کریمیا کا الحاق اور بڈاپیسٹ میمورنڈم: بڈاپیسٹ میمورنڈم میں شامل پرامن نقطہ نظر گزشتہ دہائی کے دوران خاص طور پر ولادیمیر پوٹن کے عروج اور روس کے اقدامات سے کھل کر سامنے آیا۔ 1993ء کے اوائل میں جان جے میئر شیمھر جیسے اسکالرس نے خبردار کیا تھا کہ یوکرین کیلئے امن برقرار رکھنے اور اپنے علاقہ پر دوبارہ دعویٰ کرنے کی روسی کوششوں کو روکنے کیلئے ترک جوہری اسلحہ ضروری ہے۔ میئر شمہر نے دلیل دی تھی کہ یوکرین کے جوہری ہتھیار اپنے علاقوں پر دوبارہ قبضہ سے متعلق روس کی کوششوں میں حائل ہوں گے۔ میر شمیر کا استدلال تھا کہ یوکرین کی ایسی پالیسی روسی قبضہ کو روکنے میں معاون ثابت ہوگی اور موجودہ حالات میں وہ دلیل صحیح ثابت ہورہی ہے۔ آپ کو بتادیں کہ سال 2022ء میں روس نے یوکرین کے خلاف بڑے پیمانے پر جنگ شروع کی اور اس کے نتیجہ میں یوکرین کو ایک بہت بڑے بحران میں ڈال دیا۔ خاص طور پر یوکرین کی علاقائی سالمیت اور اقتداراعلیٰ کو خطرہ میں ڈال دیا ہے حالانکہ اس کی ضمانت عالمی معاہدات میں دی گئی تھی اب ایک جوہری طاقت سے لیس ملک اس کیلئے راست طور پر خطرہ بنا ہوا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یوکرین کا انحصار حقیقت میں مغربی طاقتوں خاص طور پر امریکہ اور نیٹو اتحادیوں پر ہے۔ روسی حملہ اور قبضہ کے خلاف دفاع کیلئے یہ تائید و حمایت اسے (یوکرین) کو فوجی امداد بشمول اڈوانسڈ ویپنس سسٹم، ٹریننگ اور خفیہ معلومات کا تبادلہ کی شکل میں حاصل ہوئی ہے۔ فی الوقت یوکرین میں چار نیوکلیئر پاور پلانٹس Active ہے اور 15 ری ایکٹرس ہیں یوکرین کے نیوکلیئر ریکٹرس 81TWH برقی پیدا کرتی ہے جو اس کی جملہ برقی پیداوار کا 55 فیصد ہے۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ 1986 میں چرنویل سانحہ پیش آیا تھا۔ شمالی یوکرین میں پیش آئے اس سانحہ کو آج کی تاریخ کا بدترین نیوکلیئر سانحہ ہے۔ ایک ایسا بھی دور تھا جب یوکرین میں مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی تھی اور وہ وہاں اپنی موجودگی کا احساس بھی دلایا کرتے تھے۔ دوسری طرف روس کی آبادی 14 کروڑ 42 لاکھ 50 ہزار ہے جس میں تقریباً 10-18 فیصد مسلمان ہیں۔