آئینی عہدہ پر فائز شخص کا متنازعہ بیان ‘سوشل میڈیا پر تنقید یں
بنگلورو : کرناٹک ہائی کورٹ میں ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران معزز جج نے بنگلور کے مسلم اکثریتی علاقہ کو منی پاکستان قرار دے دیا جس کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد فرقہ پرستی پر مبنی متنازعہ بیان پر سخت تنقیدیں کی جارہی ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق جج نے بنگلور کے ایک مسلم اکثریتی علاقے گوری پلیا کو ’پاکستان‘ قرار دیا جس سے بڑے پیمانے پر تنازعہ کھڑا ہوگیا۔ جج کے بیان پر مشتمل ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا جس میں وہ میسور روڈ فلائی اوور کے قریب ٹریفک کے مسائل پر بات کررہے ہیں۔ویڈیو میں انہوں نے کہا کہ ’میسور روڈ فلائی اوور پر جائیں، ہر آٹو رکشہ میں 10 لوگ ہوتے ہیں یہاں کوئی رول نہیں ہے کیونکہ میسور فلائی اوور ہیڈ گوری پالیا بازار سے گذرتا ہے جو کہ ہندوستان میں نہیں بلکہ پاکستان میں ہے یہ حقیقت ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ کتنے ہی سخت پولیس افسر کو تعینات کرے۔ویڈیو وائرل ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر تنقیدوں کا سلسلہ شروع ہوگیا جس میں جج کے بیان پر شدید غم و غصہ کا اظہار کیا گیا جبکہ بہت سے لوگوں نے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئینی عہدے پر بیٹھا شخص ایسا بیان کیسے دے سکتا ہے۔ایک صارف نے کہا کہ ’کرناٹک ہائی کورٹ کے ایک جج، ویداویاساچر سریشانند نے بنگلور کے مسلم اکثریتی علاقے کو پاکستان کہا ہے۔ ایک جج نے اپنے ملک کے شہریوں کو پاکستانی کہا۔کیا اس سے زیادہ شرمناک بات کچھ ہوسکتی ہے؟ سپریم کورٹ کو سو موٹو نوٹس لینا چاہئے۔جسٹس سریشانند مئی 2020 سے کرناٹک ہائی کورٹ کے ایڈیشنل جج کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں اور ستمبر 2021 میں انہیں مستقل جج بنایا گیا۔
واضح رہے کہ ملک میں فرقہ پرستی کا زہر بڑے پیمانہ پر پھیل چکا ہے۔ ہر کوئی مسلم مخالف بیانات کے ذریعہ سیاسی قد بڑھانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے جبکہ مبینہ طور پر حکومت بھی ایسے نام نہاد لیڈروں کی سرپرستی کررہی ہے جو سماج کو باٹنے کا کام کررہے ہیں اور ملک کو کمزور کررہے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق مسلم کمیونٹیز کو تیزی سے نشانہ بنایا جارہا ہے جس کی وجہ سے ان میں خوف کا ماحول ہے۔