مردولا مکھرجی
راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اپنے قیام کے 100 سال مکمل کرچکی ہے۔ خود کے ایک ثقافتی تنظیم ہونے اور قوم پرستی کا دعویٰ کرنے والی آر ایس ایس کا بغور جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس نے 1925ء میں اپنے قیام سے لے کر 1947ء میں ہندوستان کی آزادی تک قابض انگریزوں کے خلاف حقیقی قوم پرست ہندوستانیوں کی جانب سے شروع کی گئی آزادی کی تحریکوں میں کسی بھی قسم کا حصہ نہیں لیا اور خود کو جدوجہد آزادی سے دُور رکھا۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ وہ سیاسی طاقتیں جو خود کو کٹر قوم پرست قرار دیتی ہیں اور اس معاملے میں دعوے کرتے نہیں تھکتی، ہندوستان کی جہدوجہد آزادی میں کوئی کردار ادا نہیں کیا اور انگریز نوآبادیاتی حکمرانی کے خلاف آواز نہیں اٹھائی، باالفاظ دیگر انگریزوں کی حکمرانی اور ان کی غلامی کے خلاف آواز اٹھانے کی جرأت نہیں کی۔ آر ایس ایس کے ایک اور نظریہ ساز اور سرسنچالک ایم ایس گولوالکر نے انگریزوں کے خلاف قوم پرستی کو رجعت پسندی قرار دیا تھا۔ بہرحال حقائق کچھ بھی ہوں، آر ایس ایس جس نے ہندو مہا سبھا، جن سنگھ اور پھر بی جے پی کو تنظیمی اور نظریاتی طور پر تقویت دی تھی، 1925ء ڈاکٹر کے بی ہیڈگوار نے اس کا قیام عمل میں لایا تھا۔ سنگھ پریوار کی اس سرپرست تنظیم نے 1925ء سے لے کر 1947ء تک کے پورے عرصہ میں انگریزوں کے خلاف کانگریس یا دوسری پارٹی یا گروپ کی جانب سے شروع کی گئی کسی بھی تحریک میں حصہ نہیں لیا اور نہ ہی اس نے اپنے طور پر انگریزوں کے خلاف کوئی تحریک شروع کی جیسا کہ اکالی دل نے 1920-25ء کے دوران گردواروں میں اصلاحات کی تحریک شروع کی اور نہ ہی آر ایس ایس نے انقلابیوں کی طرح انگریزوں کے خلاف کارروائیاں کرنے کی ہمت دکھائی۔ مثال کے طور پر انقلابیوں نے انگریز عہدیداروں کو موت کے گھاٹ اُتارا یا پھر غدر (ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی) کے متوالوں کی طرح کچھ کام کیا۔ انقلابیوں نے فوج اور تارکین وطن میں بے چینی پیدا کرتے ہوئے انگریزوں کو پریشان کرنے کی کوشش کی اور قوم پرستی کو اپنا عقیدہ قرار دینے والی آر ایس ایس کیلئے واقعی قابل فکر بات ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ آر ایس ایس کی بنیاد ڈالنے سے پہلے ہیڈگوار درحقیقت ناگپور میں کانگریس کے ایک درمیانی سطح کے لیڈر تھے اور تحریک سیول نافرمانی میں جیل بھی گئے تھے، لیکن وہ ہندو مہا سبھا کے ایک لیڈر ڈاکٹر بی ایس مونجے کے کٹر حامی تھے جنہوں نے مسولینی سے ملاقات کیلئے اٹلی کا دورہ کیا تھا اور وہاں اٹلی کے فاشسٹ اداروں کا بغور جائزہ لے کر ان سے بہت متاثر ہوئے تھے۔ یہ بھی مانا جاتا ہے کہ وہ وی ڈی ساورکر کے ہندوتوا سے بھی کافی متاثر تھے جس کی 1923ء میں اشاعت عمل میں آئی لیکن وہ اس سے پہلے ہی ان کے ہم خیال لوگوں کے مطالعہ میں تھی جس میں ساورکر نے نظریہ ہندوتوا کی بنیادی چیزوں کے بارے میں بتایا تھا اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ سرزمین ہند ہندوؤں کی ہے اور جو اس سرزمین کو اپنی ماں اور باپ کی زمین سمجھتے ہیں، باالفاظ دیگر پنیا بھومی اور پتری بھومی تصور کرتے ہیں، وہ ہندوستانی ہیں۔ اس طرح وہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو اس نظریہ اور تصور میں شامل نہیں رکھتے۔ آر ایس ایس کے قیام کے دو سال بعد سارے ملک سائمن کمیشن کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہونے لگے لیکن آر ایس ایس ان احتجاجی مظاہروں میں کہیں بھی نظر نہیں آئی۔ اس چار سال بعد ڈسمبر 1929ء میں پنڈت جواہر لال نہرو نے لاہور میں کانگریس کے سالانہ اجلاس میں قومی پرچم لہرایا اور بحیثیت صدر کانگریس ہندوستان کی مکمل آزادی کو کانگریس کا اصل ہدف اور مقصد قرار دیا۔ کانگریس نے 26 جنوری 1930ء کو اس وقت یوم آزادی منانے کا اعلان کیا جب ملک کے ہر گاؤں، ہر شہر، ہر ٹاؤن میں قومی پرچم لہرایا جائے گا اور تمام حاضرین سے قومی عہد لیا جائے گا تب ہیڈگوار نے دعویٰ کیا کہ چونکہ آر ایس ایس مکمل آزادی میں یقین رکھتی ہے، ایسے میں اُسے (آر ایس ایس) کو یوم آزادی منانا چاہئے لیکن وہ ترنگا نہیں بلکہ بھگوا جھنڈا لہرائے گی حالانکہ ترنگا ہمارا قومی پرچم ہے۔ اس بات کے بھی کئی شواہد موجود ہیں کہ ہیڈگوار انگریزی کی مخالفت کی جانب مائل نہیں تھے۔ یہاں تک کہ انگریزی راج کو ایک تدبیر سے تعبیر کیا۔ حد تو یہ ہے کہ ان ہی خطوط پر عمل کرتے ہوئے ہیڈگوار نے نیتاجی سبھاش چندر بوس سے ملاقات کرنے سے بھی انکار کردیا۔ سبھاش چندر بوس نے 1939ء میں کانگریس کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اپریل 1939ء میں ہیڈگوار کے ایک قریبی ساتھی اور معاون گوپال مکند ہوددار سے بمبئی میں رجوع ہوئے، اس درخواست کے ساتھ کہ وہ ہیڈگوار سے ان کی ملاقات کروائے جس پر مکند ہوددار دیولالی گئے جہاں ہیڈگوار اپنے ایک دولت مند ساتھی کے ساتھ قیام کئے ہوئے تھے تاکہ ان تک سبھاش چندر بوس کا پیغام پہنچائیں۔ ہوددار نے بعد میں اس وقت کی یاد تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب یعنی ہیڈگوار بالکل چاق و چوبند تھے۔ انہوں نے انہیں اپنے چند نوجوان حامیوں کے ساتھ ہنستے بولتے دیکھا۔ ہیڈگوار نے سبھاش چندر بوس سے ملنے سے انکار کردیا اور اس کیلئے خرابی صحت کا بہانہ بنایا لیکن حسب توقع ہندوتوا کے نظریہ سازوں اور اہم شخصیتوں کی امیج بنانے سے متعلق حالیہ کوششوں میں مذکورہ واقعہ کا کوئی حوالہ نہیں پایا جاتا۔ اس کے بجائے اس وقت کے صدر ہندو مہا سبھا وی ڈی ساورکر اور سبھاش چندر بوس کی بمبئی میں 1940ء کے دوران ہوئی ملاقات پر بہت کچھ کہا اور لکھا جاتا ہے اور یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ ساورکر ہی تھے جنہوں نے بوس کو ہندوستان سے روانہ ہوکر انگریزوں کے خلاف تین طاقتوں سے مدد لینے کا مشورہ دیا اور ساورکر، سبھاش چندر بوس کیلئے عزم و حوصلہ کا باعث تھے۔ حالیہ عرصہ کے دوران انقلابیوں اور سبھاش چندر بوس کے ارکان خاندان نے ان دعوؤں کو چیلنج کیا اور کہا کہ سبھاش چندر بوس، ہندو مہا سبھا اور ساورکر کے اس کے ساتھ تعلق کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا کرتے تھے۔